ایران کے مقابلے میں سعودی اور اسرائیل متحد

294705e75e353de38885131fb54a7bc4

ایران کے مقابلے میں سعودی اور اسرائیل متحد

جامعه(کوئٹہ)-ایک صہیونی نشریے یروشلم پوسٹ کی ویبسایٹ نے ایک مضمون میں ایران کے مقابلے میں سعودی عرب اور تل ابیب کے اتحاد کا جائزہ لیا ہے،  اس رپورٹ کے لکھنے والے کا دعوی ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش آج کی دنیا کے لیے سب سے پہلا خطرہ اور عالمی وحشت کا باعث ہے ،اور یہی چیز باعث بنی ہے کہ ہم نے ایران کے خطرے کو بھلا دیا ہے ۔کیا اوباما نے تہران کے ساتھ جو معاملہ کیا ہے اس کی وجہ سے مشرق وسطی کے ممالک ایران کے خلاف اسرائیل کے ساتھ جا ملے ہیں ؟اس سوال کا جواب یقینا مثبت ہے ۔ اس سوال کے جواب کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ ہم سعودی عرب کی گذشتہ ۵ سال کی سیاست پر ایک نظر ڈال لیں ۔

دعووں سے بھری ہوئی اس رپورٹ میں آگے آیا ہے ؛ آپ چاہے سعودی عرب کی اندرونی پالیسیوں اور اس کے قوانین کے حامی ہوں یا مخالف ہم اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہیں کہ یہ ملک اسلامی ملکوں کا پایتخت ہے اور اگر آخر کار سعودی عرب اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کر لے تو دوسرے اسلامی ملک بھی ڈومینو کی طرح آیندہ سالوں میں اس کو تسلیم کر لیں گے ۔ مارچ سال ۲۰۱۱ میں پہلی بار سعودی عرب نے بحرین کے شیعوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس ملک میں اپنی فوج بھیجنے کا اقدام کیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بحرین کے شیعوں کی ایران حمایت کرتا ہے ۔

لکھنے والے نے آگے دعوی کیا ہے کہ اسی سال واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ اس نے امریکہ میں ایک ایرانی کو سعودی عرب کے سفارتخانے پر دہشت گردانہ حملے سے روکا ہے ۔ ایران کی طرف سے یہ ناکام کوشش باعث بنی کہ سعودی عرب نے چین یا پاکستان سے بڑی مقدار میں بمب خریدے ۔سعودی عرب کے ایک عہدیدار نے نشریہ ٹایمز کے ساتھ بات چیت میں اعلان کیا ،کہ ریاض اپنے جوہری پروگرام کے لیے یک طرفہ پالیسیاں اپنانے پر مایل نہیں ہے ،لیکن اگر ایران اپنی جوہری طاقت میں اضافہ کرتا ہے تو سعودی عرب کے موقف میں بالکل تبدیلی ہو جائے گی ،سیاسی اعتبار سے یہ برداشت نہیں کیا جائے گا کہ ایران کے پاس جوہری توانائی ہو لیکن سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس نہ ہو ۔

اس گستاخانہ رپورٹ میں آگے آیا ہے کہ مارچ ۲۰۱۵ میں سعودی عرب نے حوثی شیعوں (انصار اللہ) کے خلاف اپنا پہلا ہوائی حملہ کیا ۔سعودی عرب نے پہلے حملے میں ۱۰۰ جہاز اور ۵۰۰ میزائل استعمال کیے ۔سعودی عرب کی اس قدر بھاری ہوائی آتشبازی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ یمن یا کسی بھی دوسرے ملک کو ایران کا نفوذ کم کرنے کے لیے تباہ کر سکتا ہے ۔اگر سال ۲۰۱۵ سے اب تک سعودی عرب کے اقدامات کا جائزہ لیں تو دکھائی دے گا سعودی عرب کی خارجی سیاست کی جارحیت میں شدت پیدا ہوئی ہے ،اور ان اقدامات کا مقصد ایران کی جو خلیجی ملکوں کے ساتھ خصومت ہے اس کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اس بنا پر اس میں تعجب نہیں ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری سمجھوتے کے بعد سعودی روزنامہ نگار جمال خاشوگی نے اعلان کیا ،کہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ایران جوہری ہتھیار سے مسلح ہوتا ہے تو سعودی عرب کو بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ اقدام کرنا چاہیے ۔ یہ بالکل ہندوستان اور پاکستان جیسا معاملہ ہے ۔پاکستان کئی سال تک یہ اعلان کرتا رہا کہ اسے جوہری ہتھیار نہیں چاہیے ،لیکن جیسے ہی ہندوستان نے جوہری تجربہ کیا پاکستان نے دوسرے ہی دن دھماکہ کر دیا ۔

اس رپورٹ میں آگے آیا ہے کہ تین دن بعد آیۃ اللہ خامہ ای نے نماز عید فطر کے خطبوں میں اعلان کیا کہ اس سمجھوتے کے بعد بھی امریکہ کے ساتھ ہماری دشمنی ختم نہیں ہو گی ۔ہم نے امریکہ کے ساتھ کوئی علاقائی یا عالمی سطح کا سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔ اس کے بعد ایران کے رہبر نے اعلان کیا کہ وہ اسد کی حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے اور لوگوں نے بھی یہ سن کر مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگائے ۔

اس صہیونی نشریے نے آگے چل کر اپنے مضحکہ خیز دعوے میں کہا ہے جوہری سمجھوتے کو ایران کے رہبر کا جواب ایک واضح پیغام تھا کہ تہران مغرب اور علاقے کے خلاف اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گا ،یہی چیز تل ابیب کی امید بندھاتی ہے کہ ایران کے خطرات کے مقابلے میں آخر کار سعودی عرب اسرائیل کی جھولی میں جا گرے گا ۔اسی سال مئی کی ۵ تاریخ کو سعودی اور اسرائیلی حکام نے ایک کھلے مجمعے میں واشنگٹن میں ملاقات کی ۔ اگر سعودی عرب اسرائیل کا تعاون کرتا ہے تو بہت سارے عرب ملک بھی اس کی پیروی کریں گے ،جس سے ایران کے خلاف مشرق وسطی میں طاقت میں اضافہ ہو گا ۔



دیدگاهها بسته شده است.