باب الحوائج حضرت ابوالفضل العباس(ع) کی ولادت با سعادت مبارک ہو

 

باب الحوائج حضرت ابوالفضل العباس(ع) کی ولادت با سعادت مبارک ہو

4164313095133234639

کوئٹہ ۔ جامعہ : ۲٦ ھ قمری تاریخ کا وہ تابناک دن کہ جس نے امام علی علیہ السلام اور فاطمہ ام البنین﴿س﴾ کے گھر کو اپنی خوشیوں کی لپیٹ میں لے لیا اور سب کی نگاہ آسمان ولایت کے خورشید امیر المومنین علی ﴿ع﴾ کے لبوں کی طرف تھی کہ اس مبارک مولود کا کیا نام تجویز کیا جا ئے تاکہ اس نام کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو سکیں۔

امام علی ﴿ٕع﴾ نے اس بچے کے کان میں اذان اور اقامت کہی اور فرمایا ۛۛ عباس ۛ یعنی جس کی شجاعت شیر سے زیادہ ہے اور جنگ کے میدان کا بادشاہ،شجاعان اسلام کا دلاور، ایسا شجاع کہ جو باطل اور ظلم و ستم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور خیر اور نیکی کے سامنے شادان اور متبسم ہے۔

آپ کا بچپن

آپ نے اپنی طفولیت کے زمانے میں تین اماموں کو دیکھا اور ایسی حالت میں اپنے بچپن کا آغاز کیا کہ جب آپ کے والد محترم معرفت ، ایمان کامل، دانایی اورکمال کے اعلی ترین مقام رکھتے تھے ،گفتار الھی اور رفتار آسمانی علی ﴿ع﴾ نے آپ کی شخصیت پر گہرا اثر کیا۔

امیر المومنین علی ﴿ع﴾ اپنے بیٹے کی پرورش اور تکامل کے بارے میں کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں ان ولدى العباس زق العلم زقا؛ میرے بیٹے عباس نے اس طرح سے مجھ سے علم اور معارف حاصل کیے جس طرح ایک ماں کبوتر اپنے نوزاد بچے کو آب و غذا کھلاتی ہے

امام المتقین ﴿ع﴾ فرماتے ہیں کہ جب آپ نے ابھی الفاظ ادا کرنا ہی سیکھے تھے امام ﴿ع﴾ نے اپنے بیٹے سے فرمایا ۛ کہو واحد عباس نے کہا ۛواحد حضرت نے فرمایا کہو ۛاثنین ، اب عباس خامش رہے اور فرمایا مجھے شرم آتی ہے کہ جس زبان سے خداوند متعال کی یگانگت کا اقرار کروں کس طرح اس زبان سے دو کہوں ۔

کبھی کبھی جب آپ حضرت عباس ﴿ع﴾ کی طرف نگاہ ڈالتے تو اپنی بصیرت کی وجہ سے حضرت عباس ﴿ع﴾ کی آئندہ زندگی کو سوچ کر آپ کی آنکھوں سے اشک غم جاری ہوجاتے اور جب ام البنین﴿س﴾ اس گریہ و زاری کا سبب پوچھتیں تو فرماتے عباس کے ہاتھ حسین ﴿ع﴾ کی نصرت اور یاری کے لیے کٹ جا ئیں گے اس کے بعد اپنے بیٹے کی مقام و منزلت کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں ، پروردگار عالم ان دو ہاتھوں کے بدلے آپ کو دو پر عطا کرے گاکہ جس کے ذریعے آپ بہشت میں اپنے عمو کی طرح سے پرواز کریں گے ۔آپ کو حضرت عباس﴿ع﴾ سے بے انتہا محبت تھی اور آپ کو لحظہ بھر بھی اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے علی ﴿ع﴾ کے پاکدل فرزند نے ١۴ سال اور ۴۷ دن جو اپنے والد کے ساتھ گزارے ،ہمیشہ جنگ اور محراب عبادت، غربت اور وطن میں اپنے والد گرامی کا ساتھ دیا ۔

خلافت کے دشوار ایام میں بھی آپ حضرت علی ﴿ع﴾ سے ایک لمحہ کے لیے جدا نہ ہو ئے اور ۳۷ ھ قمری میں جنگ صفین کے موقع پر جبکہ آپ کی عمر فقط ١۲ سال تھی شجاعت اور بے نظیر جنگ کی ۔

حضرت عباس کا علمی مقام

حضرت عباس ﴿ع﴾ نے ایسے خاندان میں جنم لیا جہاں دانش و حکمت کے اعلی ترین مراتب تھے آپ نے محضر امیر مومنان ﴿ع﴾ اور امام حسن ﴿ع﴾ اور امام حسین ﴿ع﴾ جیسی شخصیات سے کسب فیض کیا اور علم کے بالا ترین مقام تک پہنچے ۔آپ حافظ قرآن، محد ث ، راوی اور فقیہہ تھے ۔

علامہ محقق شیخ عبداللہ ممقانی ، اپنی کتاب تنقیح المقال میں آپ کے علمی اور معنوی مقام کے بارے میں فرماتے ہیں ۛ آپ فقیہ اور دانشمند اور شخصیتی عادل ، مورد اعتماد ، با تقوا اور پاک تھے۔

آپ کے القابات

١ ۔ قمر بنی ہاشم

۲۔ باب الحوائج

۳۔ سقا

۴ ۔عبد صالح

۵ ۔ سپہ سالار

٦ ۔ پرچمدار و علمدار

ابوقربه (صاحب مشک)

عميد (ياور دين خدا)

سفير (نماينده حجت ‏خدا﴾

صابر (شکيبا﴾

محتسب (به حساب خدا گذارنده تلاشها﴾

مواسى (جانباز و مدافع حق﴾

مستعجل (تلاشگرى مهربان در برآوردن حاجات ديگران)

اور غازی اور ابوالفضل آپ کے القابات میں شامل ہیں



دیدگاهها بسته شده است.