جنرل موسیٰ خان ہم شرمندہ ہیں – حامد میر به ضمیمیه ترجه فارسی

حامد میر  جنرل موسیٰ خان 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ تھے۔ اس جنگ میں پاکستانی فوج نے جس بہادری سے لاہور، سیالکوٹ اور دیگر شہروں کا دفاع کیا اس پر آج بھی فخر کیا جاتا ہے۔ 1965ء کی جنگ نے پاکستانی قوم کو کئی ہیرو دیئے۔ ان میں سے ایک جنرل موسیٰ خان بھی تھے جن کی قیادت میں پاکستانی فوج نے چونڈہ میں بھارت کو ٹینکوں کی لڑائی میں شکست دی تھی۔ عوام میں ان کی مقبولیت کے باعث ریٹائرمنٹ کے بعد صدر ایوب خان نے جنرل موسیٰ خان کو مغربی پاکستان کا گورنر بنا دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ایک دفعہ پھر موسیٰ خان کو بلوچستان کا گورنر بنایا گیا تو پہلی دفعہ عام پاکستانیوں کو پتہ چلا کہ موسیٰ خان کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہے۔ ہزارہ برادری کو آج بھی اپنے سپوت جنرل موسیٰ خان پر فخر ہے جو 1965ء کی جنگ میں آرمی چیف تھا اور بعدازاں دو مرتبہ گورنر بھی بنایا گیا۔ ہزارہ نسل کے لوگ کوئٹہ اور کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور جنرل موسیٰ خان کی طرح پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ آج پاکستان سے ان کی محبت کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ میں آئے دن ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کوئٹہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے منتخب رکن سید ناصر علی شاہ کو کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے کیونکہ ان کا تعلق بھی ہزارہ برادری سے ہے۔ گزشتہ عیدالفطر کو وہ کوئٹہ کی جس مسجد میں نماز عید ادا کر رہے تھے اس مسجد کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر کوئٹہ سے ایران جانے والے زائرین کی بس پر مستونگ کے قریب حملہ کیا گیا اور درجنوں نہتے ہزارہ افراد پر گولیاں برسائی گئیں۔ یہ واقعہ تو شہر سے باہر ہوا لیکن 4/اکتوبر کو کوئٹہ شہر کے اندر ایک اور بس پر حملہ کر کے ایک درجن سے زائد غریب ہزارہ مزدوروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ افسوس کہ پچھلے تین سال کے دوران ہزارہ برادری کی نسل کشی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور شاید اسی لئے قومی اسمبلی کے رکن سید ناصر علی شاہ اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے خلاف بغاوت پر مجبور ہو کر بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی کوئٹہ میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کا ذمہ دار حکومت کو قرار دے رہی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملوں کا آغاز گیارہ سال قبل جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا۔ 8 جون 2003ء کو 13 زیر تربیت پولیس کیڈٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ 4 جولائی2003ء کو کوئٹہ کی ایک امام بارگاہ کو نماز جمعہ کے دوران نشانہ بنایا گیا اور51/افراد لقمہ اجل بنے۔ 2 مارچ 2004ء کو کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ کیا گیا اور 36/افراد مارے گئے۔ ان بہیمانہ واقعات میں ملوث کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہ کیا جاسکا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ 2007ء میں دو افراد پکڑے گئے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ہزارہ برادری کے خلاف قتل و غارت میں ملوث ہیں لیکن یہ دونوں افراد پولیس کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ان دونوں ملزمان کے فرار نے ہزارہ برادری کے پاکستانی ریاست پر اعتماد کو متزلزل کیا۔ 2008ء کے انتخابات میں ہزارہ برادری کی اکثریت نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیئے اور اپنے علاقے سے اس پارٹی کے امیدوار سید ناصر علی شاہ کو کامیاب کروایا۔ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہزارہ برادری کو امید تھی کہ انہیں تحفظ اور انصاف ملے گا لیکن پیپلزپارٹی تو خود کوئٹہ میں محفوظ نہ رہ سکی۔ 2009ء میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کو کوئٹہ شہر میں دن دہاڑے قتل کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی زیادہ وقت اسلام آباد میں گزارنے لگے اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھتے چلے گئے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے علاوہ پنجابیوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہزارہ برادری پر حملوں کو ایک فرقہ پرست تنظیم کی کارروائیاں قرار دیتے ہیں اور پنجابیوں پر حملوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ہزارہ برادری کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر حملوں میں طالبان ملوث ہیں کیونکہ ایک کالعدم تنظیم کو طالبان کے کچھ عناصر کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ طالبان کے حامی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے کوئٹہ کو طالبان کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام کر رکھا ہے اور کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان کے تمام فیصلے کوئٹہ شوریٰ کرتی ہے اس صورتحال میں طالبان کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ کوئٹہ کا امن برباد کریں کیونکہ کوئٹہ میں بدامنی کا انہیں بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ 
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس طرح افغان انٹیلی جنس نے سوات اور باجوڑ کے پاکستان مخالف طالبان کو کنٹر میں پناہ دے رکھی ہے اور وہ کنٹر کے راستے سے پاکستانی علاقوں پر حملے کرتے ہیں اسی طرح افغان انٹیلی جنس نے ایک کالعدم تنظیم کے گروپ کو جنوبی افغانستان میں پناہ دے رکھی ہے اور یہ تنظیم کوئٹہ میں کئی سال سے دہشت گردی کر رہی ہے تاکہ ہزارہ برادری پر حملوں کے ذریعے ای
ک طرف کوئٹہ کو غیرمحفوظ بنایا جائے دوسری طرف پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی جائے۔ افغان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہزارہ برادری کا افغانستان میں کافی اثر و رسوخ ہے اور افغان انٹیلی جنس پاکستانی ہزارہ برادری پر حملے کرا کے افغان ہزارہ برادری کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ افغان حکومت اور ہزارہ برادری کے اہم عمائدین کا اصرار ہے کہ ان پر حملوں میں طالبان ملوث ہیں کیونکہ ماضی میں طالبان کے ہزارہ برادری کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ 1994ء میں طالبان نے قندھار سے کابل کی طرف بڑھنا شروع کیا تو افغان ہزارہ برادری کی تنظیم حزب وحدت نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا اور1997ء میں مزار شریف پر قبضے کی لڑائی میں دونوں نے ایک دوسرے کا قتل عام کیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہزارہ نسل کے لوگوں پر سب سے زیادہ ظلم افغان حکمران امیر عبدالرحمن کے دور میں ہوا اور اس نے 1892ء میں ہزارہ برادری کے خلاف لڑائی کو ”جہاد“ قرار دیا تھا۔ امیر عبدالرحمن کی فوج کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ہزارہ برادری نے مشہد اور کوئٹہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ 1935ء میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا تو اس کے بعد کوئٹہ کی تعمیر نو میں ہزارہ مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
ہزارہ برادری کے کئی علماء نے تحریک پاکستان میں قائداعظم کی حمایت کی تھی لیکن افسوس کہ قائداعظم کا ساتھ دینے والے اکبر بگٹی کے ساتھ بھی ظلم ہوا اور آج ہزارہ برادری کے ساتھ کوئٹہ میں روزانہ ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے ریاستی ادارے کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام ہیں بلکہ گزشتہ دنوں تو ڈی آئی جی ایف سی فرخ شہزاد کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کیا گیا جس میں ان کی اہلیہ سمیت 25/افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسرے الفاظ میں ریاست بے بس ہو چکی ہے۔ اس بے بسی کے خاتمے کا واحد راستہ اتحاد ہے اور اتحاد کیلئے ہمت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ مت بھولئے کہ کئی سال تک کُرّم کے علاقے میں بھی اہل تشیع اور اہل سنّت کو آپس میں لڑایا جا رہا تھا۔ متحارب قبائل میں ایک حالیہ معاہدے کے بعد کُرّم میں صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے۔ کوئٹہ میں بھی امن قائم کرنے کیلئے تمام اہم سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرنا ہوگا۔ 1965ء میں پاکستانی فوج نے ہزارہ برادری کے ایک جرنیل موسیٰ خان کی قیادت میں پاکستان کا دفاع کیا تھا۔2011ء میں اہل پاکستان کو ہزارہ برادری کا دفاع کرنا ہے۔ ہزارہ برادری کے دشمن پاکستان کے دشمن ہیں۔ ان دشمنوں کو ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو تحفظ دیں اور جنرل موسیٰ خان کی روح کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔
جنرال موسی خان ما شرمنده هستیم

نوت: متن زیر از آقای حامد میر است. آقای حامد میر یکی از مطرح ترین ژورنالیست های پاکستان می باشد. وی صاحب نظر در مورد مسایل تروریزم و مسایل امنیتی است. همچنان آقای میر در اکثر از کنفرانس های بین المللی شرکت می کند. آقای حامد میر به خاطر متن هایش به زبان های اردو، هندی، بنگالی وانگلیسی در روزنامه های پر تیراژ بیشتر شناخته می شود. با آنکه به خاطر مطالب اش از طرف حکومت پاکستان چندین بار بر وی محدودیت اعمال شده است، ولی با آنهم این روز ها گرداننده یکی از مهم ترین برنامه های سیاسی میز گرد در شبکه تلویزیونی جیو به نام “کیپیتل تاک” می باشد. متن حاضر از وی نمایانگر مطالعات دقیق اش در مورد هزاره ها، اعتراف خدمات هزاره ها برای پاکستان و نظر وی در رابطه به راه بیرون رفت از معضله نسل کشی هزاره ها می باشد. از دوستان خواهشمندم در صورت امکان این مطلب را دقیق مطالعه کنند.”

 جنرال موسی خان ما شرمنده هستیم

نوشته: حامد میر         ترجمه: عبدالله رفیعی           منبع: روزنامه جنگ 6/10/2011م

     جنرال موسی خان در جنگ 1965میلادی، که در بین پاکستان و هندوستان بود، ریس ارتش پاکستان بود. در آن جنگ ارتش پاکستان با آن شجاعت و دلیری که از مناطق لاهور و سیالکوت دفاع کرد، تا به امروز به آن افتخار می شود. جنگ 1965م، برای پاکستان چندین قهرمان تحویل داد.  یکی از آن قهرمانها جنرال موسی خان بود، که تحت رهبری وی در جنگ تانکها در منطقه چونده، ارتش هند شکست خورد. به خاطر مقبولیت بیش از حد وی در بین مردم، بعد از تقاعد اش، ریس جمهور ایوب خان، جنرال موسی خان را گورنر مغربی پاکستان مقرر کرده بود. در دوران جنرال ضیا الحق زمانی، که حکومت یکبار دیگر وی را گورنر بلوچستان انتخاب کرد، در آن زمان برای اولین بار مردم پاکستان فهمیدند، که موسی خان از قوم هزاره است. هزاره ها امروز نیز به جنرال موسی خان، که در جنگ 1965م، ریس ارتش بود، افتخار می کنند. بعد از ریاست ارتش، دو دفعه وی گورنر مقرر شد. هزاره ها به علاوه کویته و کراچی در شهر های مختلف پاکستان ساکن می باشند و مثل جنرال موسی خان، با پاکستان محبت دارند، لیکن افسوس و صد افسوس که امروز یک
بار دیگر از دوستی و محبت آنها نسبت به پاکستان امتحان گرفته می شود. در کویته هر روز، هزاره ها مورد کشتار هدفمند و بمبگذاری قرار می گیرند.

     عضو پارلمان مرکزی آقای سید ناصر علی شاه، که با نامزدی از طرف پاکستان پیپلز پارتی انتخاب شده است، چندین بار مورد حمله ناکام قرار گرفته است، زیرا او نیز هزاره است. در عید فطر گذشته وی در مسجدی که نماز می خواند، آن مسجد مورد حمله انتحاری قرار گفت. بعد از آن بر اتوبوس زایران که به طرف تفتان می رفتند، حمله صورت گرفت و یک تعداد افراد بی گناه قتل عام شدند. این واقعه ها در خارج از شهر صورت گرفت، ولی به تاریخ چهارم اکتوبر 2011م، در داخل شهر بر یک بس حمله صورت گرفت و بیشتر از یک درجن اشخاص غریب و کارگر کشته شدند. افسوس که از سه سال به اینطرف نسل کشی هزاره ها شدت یافته است و شاید به همین خاطر عضو پارلمان مرکزی سید ناصر علی شاه، بر ضد حزب خودش مجبور به طغیان شده و خواهان برقراری، وضعیت اضطراری “نظامی” در بلوچستان می باشد.

     از طرف دیگر هزاره دموکراتیک پارتی نیز، حکومت را مسوول اضافه شدن حملات تروریستی بر هزاره ها می داند. آغاز حملات تروریستی بر هزاره در دوره پرویز مشرف بود. به تاریخ 8 جون سال 2003م، سیزده تن از پولیس های زیر تربیه هزاره مورد هدف قرار گرفتند. به تاریخ 4 جولای 2003م، یکی از امام بارگاه های کویته در دوران نماز، مورد هدف قرار گرفت و 51 نفر کشته شدند. به تاریخ 2 مارچ 2004م، بالای جلوس عاشورا حمله صورت گرفت و 36 نفر کشته شد. عاملان این حوادث هیچ کدام شان دستگیر نشدند و این سلسله باقی ماند. در سال 2007م، دو نفر از کسانی که اعتراف به قتل و غارت نمودن هزاره ها نموده بودند، دستگیر شدند، ولی این دو شخص از دست پولیس فرار کردند. بعد از فرار نمودن این دو فرد، هزاره ها اعتبار شانرا بر دولت پاکستان از دست دادند. در انتخابات سال 2008م، اکثریت از هزاره ها به نماینده منتخب پاکستان پیپلز پارتی، سید ناصر علی شاه رای دادند. بعد از روی کار آمدن حکومت پیپلز پارتی در بلوچستان، هزاره ها امیدوار بودند، که به عدالت می رسند، ولی پیپلز پارتی خودش در کویته غیر محفوظ شد. در سال 2009م، یکی از اعضای پیپلز پارتی و وزیر تعلیم بلوچستان شفیق احمد خان را در کویته در روز روشن قتل کردند. بعد از آن وزیر اعلی بلوچستان نواب اسلم ریسانی به گذراندن اکثر از اوقات اش در اسلام آباد مصروف شد و کشتار هدفمندانه در کویته اضافه گردید. در کویته بر علاوه هزاره ها، پنجاپی ها نیز مورد کشتار هدفمند قرار می گیرند. اداره های انتظامی حملات بر هزاره ها را به یک سازمان فرقه پرست نسبت می دهند و از پنجاپی ها را به آزادی خواهان بلوچ نسبت می دهند. اکثریت از هزاره ها فکر می کنند، که مسوول حمله بر آنها طالبان می باشد، زیرا سازمان فرقه پرست حمله کننده بر آنها، توسط بعضی از رهبران طالب سرپرستی می شوند. حامیان طالبان این اتهام را رد می کنند. آنها می گویند، که آمریکا کویته را به خاطر طالبان در تمام جهان بدنام می کند و می گویند که تمام تصمیم های طالبان را شورای طالبان کویته می گیرد. در همچون یک وضعیت طالبان به هیچ قیمت نمی خواهد که امنیت کویته را مخدوش کند، زیرا از بد امنیتی در کویته به آنها ضرر بیش از حد می رسد.

     این گونه نیز گفته می شود، همانطوری که سازمان امنیت ملی افغانستان، طالبان مخالف دولت پاکستان را که از منطقه سوات و باجور می باشند، در کنر پناه داده اند، تا از راه کنر بالای مناطق پاکستان حمله بتوانند، همان طور سازمان امنیت ملی افغانستان، یک سازمان فرقه پرست را در جنوب افغانستان پناه داده است و آن سازمان از چندین سال بدینسو، در کویته مصروف حملات تروریستانه است، تا توسط حمله بر هزاره ها، از یک طرف کویته را نا امن بسازد و از طرف دیگر رابطه ایران و پاکستان را برهم بزند. حکومت افغانستان می گوید، در مورد حمله بر هزاره ها کویته، آنها دست ندارند، زیرا هزاره ها در افغانستان نفوذ و قدرت زیاد دارند و سازمان امنیت ملی افغانستان بر هزاره ها در کویته حمله نموده و خود را با خشم هزاره های افغانستان هرکز روبرو نمی کنند. حکومت افغانستان و رهبران مهم هزاره ها بر این امر اصرار دارند، که مسوول حملات بر آنها طالبان است، زیرا در گذشته رابطه هزاره ها و طالبان متشنج بوده است. در سال 1994م، زمانی که طالبان از قندهار به طرف کابل حرکت کردند، حزب هزاره های افغانستان به نام حزب وحدت با اتحاد شمال متحد شد و در سال 1997م، به خاطر کنترول بر مزار شریف هر دو طرف یکدیگر را قتل عام کردند. تاریخ می گوید، که بر هزاره ها از همه بیشتر ظلم در دوران عبدالرحمن شده است. او در سال 1892م، جنگ بر ضد هزاره ها را جهاد نام نهاد. هزاره ها از ظلم و استبداد بیش از حد وی، به تنگ آمده و به طرف کویته و مشهد هجرت نمودند. در سال 1935م، در کویته زلزله شد. بعد از آن در تعمیر دوباره کویته کارگران هزاره سهم اساسی گرفتند.

     اکثر از علمای هزاره، در حرکت آزادی خواهی پاکستان، با قاید اعظم کمک کردند، ولی افسوس کسانی که با قاید اعظم کمک کردند بر آنها ظلم صورت گرفت. مثل نواب اکبر خان بکتی و امروز بر هزاره ها نیز ظلم صورت می گیرد و روزانه بر آنها کوه های از غم شکستانده می شود. سازمانهای دولتی نمی توانند جلو کشتار هدفمندانه هزاره ها را بگیرند. چند روز قبل بر منزل دی آی جی، فرنتیر کور آقای فرخ شهزاد حمله صورت گرفت و در نتیجه آن به شمول خانم وی 25 نفر دیگر کشته شدند. به کلمات دیگر ریاست ناکام شده است. یگانه راه نجات اتحاد است و برای اتحاد همت و ثابت قدمی لازم است.

 نباید فراموش کرد، که از چندین سال به این طرف اهل تشیع و اهل تسنن مناطق کرم، با یکدیگر جنگانده می شدند، ولی حالا بعد از یک معاهده آتش بس وضعیت خوبتر است. برای تامین امنیت در کویته نیز باید تمام احزاب سیاسی و اداره های دولتی باهم گفتگو کنند و راه حل را بیابند. در سال 1965م، ارتش پاکستان به رهبری یکی از جنرال های هزاره، از پاکستان دفاع کرد. در سال 2011م، اهلیان پاکستان باید از هزاره ها دفاع کنند. دشمنان هزاره ها، دشمن پاکستان هستند. به خاطر ناکام کردن این دشمن ها، یگانه طریقه اش این است، که ما یکدیگر مانرا حفاظت کنیم، تا در مقابل روح جنرال موسی خان شرمنده نباشیم.

* برگرفته شده از وبلاگ كويته پاكستان  –  روزنامه جنگ

+;نوشته شده در ;پنجشنبه چهاردهم مهر 1390ساعت;18:19 توسط;مدیریت سایت; |;



دیدگاهها بسته شده است.