جمہوریت ہی خون کا بدلہ ہے۔

آمریت کی چھتری کے سائے تلے ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی جمہوری حکومت نے گرتے سمبھلتے اپنے پانچ سال پورے کئے  حکومت کے سر پر مختلف تلواریں لٹکتی رہیں اور عوام کے سر پر بھی جمہوریت کی تیغ بْراں آویزاں رہی۔بقول کسی جمہوری وزیر اعلی کے تلوار تلوار ہوتی ہے چاہے وہ تلوار جمہوریت کی ہو یا اعلی عدلیہ کی  آمریت چاہے لوگوں کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں ہی بہادے پھر بھی منفور ہے جبکہ جمہوریت چاہے لوگوں سے لباس چھین لے بے گھر کردے اور بھوکا رکھے پھر بھی محبوب ہے آخر راز کیا ہے؟

آج  دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر بھی وہ ممالک ہم سے آگے ہیں اور ترقی یافتہ ہیں  انکے عوام ہم سے زیادہ خوشحال ہیں انسانی ضروریات زندگی کی فراوانی  ہے بلکہ یہاں تک کہ جمہوری ممالک کے باشندے تلاش معاش کی خاطر انہیں ممالک کا رخ کرتے ہیں جبکہ جمہوری ممالک میں فقرو فاقہ کا دور دورہ ہے  ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بوسیدہ عمارتیں، شہروں میں گندگی کے ڈھیر صحت عامہ کے مراکز کا فقدان، تعلیم عنقا، سفری سہولیات سے عاری، روز گار کے مواقع کا فقدان، جبکہ ان غیر جمہوری ممالک میں عالی شان عمارتیں، وسیع و عریض سڑکیں، روزگار کے مواقع کی بہتات ، صحت عامہ اور حفظان صحت کے مراکز کا وفور امن و امان کی بہتر صورت حال نہ کوئی ٹارکٹ کلنگ نہ ہی بم دھماکے نہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں نہ سفر کا خوف نہ بنک ڈکیتی مگر لوگ پھر بھی ایسی  حکومتوں سے نالاں آخر کیوں؟

اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ کہ غیر جمہوری حکومتیں اپنی رعایا کو سب کچھ دےدیتی ہیں مگر کچھ انسانی بنیادی حقوق کو سلب کرلیتی ہیں ان میں سر فہرست آزادی زبان  و قلم ہے۔ انسان فطری  طور پر بولنے اور لکھنے کا خوگر ہے اگر انسان کے قدموں پر اقالیم سبعہ  کو رکھا جائے اور اس سے نہ بولنے اور نہ لکھنے کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اس پیشکش کو جوتی  کی نوک پر رکھ دے گا۔  انسان بھوک برہنہ گی اور بے گھر ہونا برداشت تو کر سکتا ہے مگر اظہار  بیان کی قدغن اور پامالی کو بر داشت نہیں کرسکتا انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت ازادی  بیان ہے وہ اپنے دکھ سکھ درد و جذبات کو بیان کرنا چاہتاہے وہ  چاہتاہے کہ  اپنے غم و خوشی کی تشہیر کرے لوگوں کے دکھ درد کو سنے انکی خوشی میں شریک رہے اچھی سڑکیں بلند و بالا عمارتیں، صحت کے مراکز کا وجود امن و امان کی بہتر صورت حال یقینا بڑی نعمتیں ہیں  مگر یہ نعمتیں انسان کو آسودہ خاطر نہیں کر سکتیں آزادی اظہار کے بجز یہ نعمتیں کوئی معنی نہیں رکھتی انسان کے وجود میں پکنے والے لاوا کا علاج صحت عامہ کہ مراکز نہیں کر سکتے انسان کی شخصیت کی بلند وبالا عمارت کو اظہار خیال پر غد غن لگاکر منہدم کر کے اینٹ اور گھارے کی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرنے سے انسان کبھی بھی خوش نہیں رہتاشاہراہوں کو پر امن بناکر اس کی ہستی کی شاہراہ پر پہرے بٹھانے سے وہ اپنے آپ کو مقید سمجھتا ہے انسان اپنے جسم کی کلنگ کو برداشت تو کرسکتا ہے مگر اسکی شخصیت کی کلنگ اس سے برداشت نہیں ہوسکتی وہ اپنے ارادہ  و اختیار  سے کسی کے ہاتھ میں اپنے دنیاوی امور کے زمام کو تھمانا چاہتا ہے جبراْ  کوئی اسکا سربراہ بنے اور اس کی مرضی کے خلاف اس پر کوئی حکومت کرے اور اس پر اپنے فیصلے مسلط کرے کسی طرح برداشت نہیں کرسکتا۔

جمہوریت سب سے بڑی نعمت اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہر انسان کو رنگ و نسل کے بغیر اظہار رائی کا حق دیتی ہے جب اظہار رائ کی آزادی ہوتی ہے تو انسان کے وجود میں نہفتہ صلاحتیں ابھر کر سامنے آنے لگتی ہیں اور انہیں متنوع صلاحتیوں کے منصہ وجود میں آنے کی وجہ سے  سماج میں اختلاف رائ وجود میں آتاہے۔

اور اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے قانون ساز ادارہ موجود ہوتاہے اور قانون ساز ادارے کے ممبران کے انتخاب کا حق بھی لوگوں کو جمہوریت ہی عطا کرتی ہے ہاں جمہوریت کی اس عظیم نعمت آزادی سے کچھ لوگ غلط فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے چراغ سے چور فائدہ اٹھاتاہے تو اس میں چراغ کا کیا قصور؟ بم دھماکے، ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، ٹارکٹ کلنگ کے واقعات جمہوریت کی کوکھ سے  جنم نہیں لیتے بلکہ آمریتوں کے دور میں پلنےوالے غیض و غضب کا لاوا  جمہوری دور میں آزادی  کی وجہ سے پھٹنے لگتاہے آج ہمارے ملک میں جمہوریت پنپ  رہی  ہے اس بات سے کوئی صاحب فہم انکار نہیں کرسکتا کہ پانچ سالہ جمہوری دور خونی دور تھا،  ٹارگٹ کلنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا، بم دھماکوں سے کوچہ و بازار گونجتے رہے صحت عامہ کے مراکز برباد ہوگئے، شاہراہیں غیر محفوظ رہیں، اغوا برائے تاوان  کی وارداتیں تسلسل سے ہوتی رہیں مگر اس میں بے چاری جمہوریت کا کیا قصور یہ بھی تو دیکھنا چاہئیے  کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو اعلی عدلیہ  کے روبرو حاضر ہونا پڑا عدالت کا حکم ماننا پڑا دوسرےوزیر اعظم کو بھی عدل و انصاف کے ادارے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا یہاں تک کہ اعلی عدلیہ پر بھی تنقید کی بارش ہوئی اور عدالتوں نے اس تنقید کو برداشت کیا یہ اعلی ظرفی بھی جمہوریت ہی کے مرہون منت ہے۔  لہذا اس آشوب زدہ پاکستان میں جمہوریت ہی بہتری اور ترقی لا سکتی ہے اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی صلاحیت ہمیں جمہوریت ہی دے سکتی ہے ایک دن ہم بھی اپنے وطن عزیز کی جمہوریت پر  فخر کرنے کے قابل ہو جائینگے اور دنیا کو ہم بتا دینگے کہ ہم فطرتاْ جمہوریت پسند ہیں آمریت اور دہشت گردی ہمارے قومی مزاج میں شامل نہیں بلکہ یہ غیروں کے عنایت کردہ تحفے ہیں۔

مگر ہمیں اب اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا    ہمیں قوم و قبیلہ ، لسان ، صوبہ ، مکتب، مذہب، جماعت، دوستی دولت کے عناوین کو پس پشت ڈال کر  با صلاحیت اور مخلص لوگوں کو منتخب کرنا پڑے گا تا کہ مثبت تبدیلی آسکے آج مال و دولت سے مالامال ممالک میں جہاں زندگی کی تمام تر سہولیات پائی جاتی ہیں لوگ آزادی چاہتے ہیں اور ہمارے پاس سب سے قیمتی شی یعنی جمہوریت ہے ۔ آزادی  اظہار ہے زندگی کی سہولیات چاہتے ہیں زندگی کی سہولیات محنت اورلگن سے  حاصل کئے جاسکتے ہیں ان سہولیات کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ پسینہ بہانا پڑتا ہے جبکہ جمہوریت اور آزادی  کے حصول کے لئے پسینہ نہیں خون بہانا پڑتا ہے ۔ آج پاکستان میں جمہوریت دختر مشرق کے خون  کے مرہون منت ہے لہذا اس خون کے بدلے ملنے والی جمہوریت کی قدر کرنی چاہیے۔

جی ہاں پاکستان میں بھٹو کی موت پر جمہوریت کا اختتام ہواتھا  بینظیر  کی شہادت نے جمہوریت کو دوام بخشا جمہوریت کی بقاء خون کا بدلہ بھی ہے اور پاکستان کے وجود کی ضمانت بھی۔  آج جس نے جمہوریت کا خون کیا وہ بھی  اعتراف کرتاہے  کہ   جمہوریت ہی تمام مسائل کاواحد  حل ہے ۔

تحریر : اکبر حسین زاہدی



دیدگاهها بسته شده است.