لوگ زکوۃ و خمس جیسے فرائض کو ادا کریں تا کہ معاشرےسے فقر و فاقہ جیسے مسائل کا خاتمہ ہو، مولانا غلام حسین وجدانی

کوئٹہ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نائب امام جمعہ اور جامعہ امام صادق علیہ السلام  کے استاد مولانا غلام حسین وجدانی نے  راہ خدا میں انفاق یعنی راہ خدا میں اپنے مال کو خرچ کرنے کے حوالے سے  کہا کہ  اسلامی  معاشرے میں وہ افراد جو مالی اعتبار سے  غنی سمجھے جاتےہیں اللہ تبارک و تعالی نے ان پر فرض کیا ہے کہ وہ زکوۃ و خمس جیسے فرائض کو ادا کریں تا کہ معاشرےسے فقر و فاقہ جیسے مسائل  کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے سورہ حدید کی آیت نمبر ۱۰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خدا ان لوگوں سے مخاطب ہے جو راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے کہ “تم راہ خدا میں کیوں انفاق نہیں کرتے جبکہ زمین و آسمان  میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کو مال دیا گیا ہے تو وہ خدا کا عطا کردہ ہے جبکہ کچھ لوگ خرچ کرنے سے کتراتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس مال کو اپنا مال سمجھتے ہیں اور جب انسان مال کو  اپنی  ملکیت سمجھنے لگے تو وہ دوسروں پر خرچ کرنے سے کتراتاہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مزید کہا: کچھ لوگ اس لئے بھی راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مال خرچ کرنے سے ختم یا کم ہوجائے گا جبکہ سورہ سبا کی آیت نمبر ۳۹ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے کہ “اگر تم راہ خدا میں انفاق کروگے تو خدا اس کی وجہ تمہیں دوسری چیز عطا کرےگا” اور خدیث رسول اکرم ﷺ میں اس بات کو بڑی صراحت سے  بیان کیاگیاہے کہ جس نے راہ خدا میں ایک درہم دیا تو خدا اسے سات سو برابر عطا کرےگا۔

انہوں مزید کہا کہ ضروری ہے کہ انفاق مال حلال سے ہو۔  حرام کی کمائی سے راہ خدا میں انفاق کا کوئی فائدہ نہیں۔ معاشرے میں کچھ لوگ حرام کما کر  مسجد و  مدرسے یا دوسرے نیک کاموں مثلا عزاداری و غیرہ میں خرچ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت ثواب کا کام کیا ہے جبکہ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حرام سے کمایا ہوا مال انکا نہیں ہے جو وہ اس میں سے انفاق کررہے ہیں۔ حرام مال غصبی مال کی حیثیت رکھتا ہے  اور اس میں  دوسرے کا  حق ہے لہذا کسی کا حق مار کے راہ خدا میں خرچ کرنا کوئی اسلامی عمل نہیں ہے۔

انہوں نے آخر میں  اس نکتے پر زور دیا کہ مومن وہ ہے کہ  جو اپنی پسندیدہ  اور حلال چیزوں سے انفاق کرے اس لئے  کہ مؤمن “مقام برّ” یعنی نیکی کے اعلی  و ارفع مقام تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اپنی محبوب اور پسندیدہ  چیزوں  میں سے  انفاق نہ کرے ۔ انہوں نے آخر میں  یہ بھی کہا کہ  معاشرے میں مال کی نا عادلانہ  تقسیم اور مالی فرائض کی عدم انجام دہی کی وجہ سے فقر و فاقہ عام ہوتا جارہاہے اور بھکاری اور گداگری کلچر بھی تیزی سے پھیل  رہا ہے لہذا اسلامی معاشرے کے مالدار افراد اگر مالی واجبات کو ادا کریں تو یہ غلط کلچر اور اس سے  جنم لینے والے جرائم کا سد باب ہوسکتاہے۔

خطبہ دوم

مولانا غلام حسنین وجدانی نے دوسرے خطبے میں چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا جن میں سر فہرست  امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے  امام (ع) کی سیرت کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا اور وہ یہ  کہ امام  کے زمانے میں اسحاق کندی نامی ایک عالم نے “تناقضات القرآن” نامی ایک کتاب لکھنا شروع کی جس میں  اس نے یہ کوشش کی کہ نعوذ باللہ قرآن میں بعض آیات ایک دوسرے کی ضد و تناقض ہیں۔ جب امام علیہ السلام کو یہ پتہ چلا  تو امام (ع) نے اپنے ایک شاگرد کو اس کے پاس شاگردی  کرنے کا حکم دیا۔ جب اس  صحابی امام نے  ا سحاق کی شاگردی اختیار کرلی اور اس کا اعتماد حاصل کرلیا تو امام کے سکھائے ہوئے سوال کو اسحاق  سےکیا  کہ “کیا ممکن ہےکہ خدا کہ  نے ان آیات میں کسی اور چیز کا ارادہ کیا ہو جو تو  نے  سمجھا ہے؟ اس لئے  کہ متکلم  خدا ہے اور ممکن  ہے کہ اس نے ان آیات میں کچھ اور ارادہ کیا ہو اور اس کی مراد  کچھ اور ہو” کندی نےکچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ یہ تیرا سوال نہیں  ہوسکتا بلکہ  تجھے کسی نےسکھا کر بھیجا ہے۔ اس لئے  کہ یہ بہت گہرا سوال ہے اور تیرے ذہن میں ایسا سوال نہیں آسکتا۔ شاگرد نےکہا کہ ہاں!  یہ مجھے  میرے امام (ع) نے سکھا یا ہے ۔ تو اس نے اقرار کیا کہ ہاں تو نے حقیقت بیان کی ہے کہ اس طرح کے مسائل  خاندان رسول (ص) کے علاوہ کوئی اور نہیں  جانتا۔ اس کے بعد اسی وقت اس نے آگ منگوائی اور کتاب کو جلا دیا۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی جو افراد نادانی اور کم علمی  کی وجہ سے عقیدتی انحراف کا شکار ہوگئے ہیں ان کو  ہم فورا اپنے سے دور نہ کریں بلکہ ان سے  دوستی کرکے ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔

مولانا نے آخر میں  سانحہ شکار پور  میں 60 سے زیادہ  مومنین کی شہادت  پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان میں تین دھائیوں سے مسلمانوں خصوصا شیعوں کی نسل کشی جاری ہے اور حکومت  اور فوج  دونوں اس دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اگر چہ جنرل راحیل شریف  اور فوج نے دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائیاں کی ہیں لیکن وہ کاروائیاں واضح نہیں ہیں کہ ان میں کن افراد  کو مارا جارہاہے اور اب تک  جو پھانسیاں ہوئی ہیں  ان میں اکثر حکومت  کے مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے جبکہ پاکستان کے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قاتل دہشت گرد اب بھی آزادی کے  ساتھ اپنی کاروائیاں  کررہے ہیں اور سانحہ پشاور  کے بعد شکار پور  میں ہونے  والا وقعہ  اسی بات کی عکاسی  کرتاہے۔ لہذا ہم حکومت سے اور خصوصا فوج سے  یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپریشن کو شفاف کرےاور عوام کے قاتلوں کے بے نقاب کرکے انہیں پھانسی دے۔



دیدگاهها بسته شده است.