آل فقاہت و شہادت کی ایک کڑی، گلستان حکیم کا ایک پھول

076dfbf67763a5a5d1334f953b9c7b87

کوئٹہ ۔ جامعہ امام صادق(ع) ۔ ترجمہ: سید افتخار علی جعفری

آیۃ اللہ سید محمد باقر حکیم

ایک رجب ۱۴۲۴ ہجری قمری کو امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت کے روز آپ کی نسل پاک سے آپ کا ہمنام ایک فرزند ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کر گیا اور اپنے محبوب کے دیار میں اطمینان قلب کے ساتھ حاضرہوگیا۔ اس سید بزرگوار نے اپنے نیک افکار اور صالح کردار سے الٰہی فرائض کو انجام دیا اور راہ محبوب میں اپنی ہجرت، مجاہدت اور تلاش وکوشش کا اجر اسی روز مولائے متقیان علی علیہ السلام کے مقدس روضے کے جوار میں حاصل کر لیا۔ اور ان کی پاک روح انکے شہید بھائیوں اور اجداد سے ملحق ہو گئی۔ شہید آیت اللہ محمد باقر حکیم کی یہ معراج مبارک باد۔

گلستان حکیم کا ایک پھول

خاندان حکیم کا شمار اپنے زمانے کے نیک اور باکردارلوگوں میں ہوتا تھا۔ فقاہت اور شہادت اس خاندان کا طرّء امتیاز تھا۔ آیت اللہ حکیم ، مرجع تقلید آیت اللہ سید محسن حکیم (رہ) کے فرزند ارجمند تھے کہ جو ۲۵ جمادی الاول سن ۱۳۵۸ ق (۱۹۳۰م) کونجف اشرف میں ایک باتقویٰ اور  اہل علم و ادب خاندان میں پیدا ہوئے آپ کے والد بزرگوار جدید تفکر کے مالک اور سیاسی و سماجی معلومات رکھنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ سید محسن حکیم کی زیادہ تر اولاد اور رشتہ دار ۳۴ سالہ عراق کے حزب بعث کی حکومت کے دوران یا قید رہے یا شہید کر دئے گئے۔ اور خود انہیں بھی  زندگی کے آخری سالوں میں بعثی لشکر نے شدید شکنجوں میں گرفتار کیا۔ ۱۳۶۰ ھ کی ابتداء میں حکیم خاندان کے دسیوں افراد کو گولیوں سے چھلنی کر دیا لیکن شہید محمد باقر حکیم نے جہاد اور مزاحمت کے دشوار راستے کا انتخاب کرکے عراقی جوانوں کو بعثی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔

شہید حکیم کی علمی کاوشیں

شہید محمد باقر حکیم نے اپنی علمی کوششوں اور کاوشوں کے ذریعے ۱۳۸۵ق (۱۹۶۵م) میں فقہ و اصول اور تعلیمات قرآنی میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو کر ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ ۱۹۶۴ اور ۶۵ میں قرآنی علوم کی تعلیم اور تدریس کے عنوان سے بغداد کی الٰہیات یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے۔ شہید اپنی مختلف سیاسی مجاہدات کے باوجود علم و دانش سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ اور اپنی علمی زحمتوں کے نتیجے میں ۶۰ کتابوں کے مصنف اور مختلف علوم میں منجملہ فقہ، اصول، قرآن ، تفسیر، اقتصاد، تاریخ وغیرہ میں رسالوں کو تحریر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے نامور اساتید میں آیت اللہ سید یوسف حکیم، سید ابوالقاسم الخوئی، سید محمد باقر صدر اور کچھ دوسرے حوزہ علمیہ نجف کے بزرگان بھی شامل ہیں۔

سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں

 شہید آیت اللہ محمد باقر حکیم نے ۱۹۵۷ء میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور ۱۹۵۹ء میں اپنے والد کے زیر نگرانی ” حزب الدعوۃ الاسلامیۃ” کی تاسیس میں حصہ لیا۔ ۱۹۷۰ میں دوبارہ قید ہو گئے۔ آخری بار آزادی سے پہلے عراق کی خفیہ پولیس سے بچ کر عراق چھوڑنے اور شام کی طرف حرکت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں انکے ساتھی شہید باقر صدر کی شہادت کے دوران ایران میں پناہ لی۔ سن ۱۹۸۲ء میں آپ کے خاندان کے ۱۲۵ افراد عراقی پولیس نے قید کرکے ان میں سے ۲۹ افراد کو شہید کر دیا ۔ سید مھدی حکیم، شہید حکیم کے بھائی بھی ۱۹۸۸ میں صدام کے اہلکاروں کے ذریعے سوڈان میں شہید کر دیئے گئے۔

مجلس اعلیٰ اور لشکر بدر کی تشکیل

شہید آیت اللہ محمد باقر حکیم نے اپنے دوستوں کے تعاون اور حمایت سے ۱۹۸۳ء میں عراق کے اسلامی انقلاب کی مجلس اعلی کو ایران میں تاسیس کیا۔ آپ سب سے پہلے اس مجلس میں اسپیکر کے عنوان سے مقرر ہوئے۔ اور چار سال اس ذمہ داری کو انجام دینے کے بعد ۱۹۸۷ میں مجلس اعلی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ تقریبا اسی سال مجلس اعلی کی ایک فوجی شاخ کے عنوان سے لشکر بدر بھی تشکیل پایا۔ شہید حکیم نے بذات خود اس لشکر کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لی۔ آیت اللہ حکیم اس ۲۲ سالہ ملک بدر کی مدت میں سات مرتبہ بعثیوں کی طرف سے کئے گئے حملات سے بال بال بچے۔

علمی میدان میں جہاد

شہید محمد باقر حکیم نے اپنی سیاسی اور سماجی مجاہدات کے علاوہ علمی میدان میں بھی انتھک زحمتیں اٹھائیں۔اور شہید سید عبد الصاحب حکیم، شہید سید عباس موسوی، اور حجۃ الاسلام محمد باقر مھری جیسے شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف کتابوں کو تالیف کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ اسلامی اور سیاسی علوم میں چھپنے والی آپ کی ۲۲ عدد کتابوں میں سے ، علوم القرآن، تاثیر اہلبیت(ع) امت اسلامی کی تشکیل میں، اسلام کی نظر میں حقوق انسانی، حکومت اسلامی تھیوری اور واقعیت کے درمیان، کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

آیت اللہ حکیم کی بے انتہا محبوبیت عراقیوں کے دلوں میں اور دشمن کی تیز اور چالاک نگاہوں نے عراقی شیعیوں کو امریکیوں کے خلاف قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ عراق پر قابض امریکی آپ کے خاتمہ کے بارے میں سوچنے لگے تا کہ عراقی عوام اپنے رہبر کے وجود سے محروم ہو جائیں۔ تمام نگاہیں اس رہبرعظیم کی طرف مجذوب تھیں جبکہ دشمن انہیں دہشت گردانہ حملہ کا نشانہ بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

آخری لمحوں تک ثابت قدمی

شہید آیت اللہ حکیم نے زندگی کے آخری لمحوں تک ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے ارادوں میں لغزش نہیں آئی۔ اپنی شہادت سے چند منٹ پہلے نجف اشرف کے اندر نماز جمعہ میں دشمنوں کے خلاف صدائے اعتراض بلند کرتے ہوئے فرمایا: ’’ناجائز قابض فوجیوں نے اپنی ذمہ داری پردرست عمل نہیں کیا ہے ہم انہیں اور انکے طرز عمل کو محکوم کرتے ہیں بلکہ ہم ان کو عراق کے اندر بد امنی کا باعث سمجھتے ہیں  ہم نے تو پہلے سے ہی اعلان کیا کہ امریکی فوجیوں کو چاہیے کہ امنیت کے مسئلے کو خود عراقی عوام کے سپرد کر دیں۔ تا کہ وہ خود اپنے ملک کی امنیت اور سالمیت کو بحال کر سکیں اور ہم نے کہا تھا عراقی مومنین کا ایک فوجی لشکر تشکیل دیا جائے تا کہ وہ عراق کے مقدس مقامات کی امنیت کو بحال کرسکیں۔ اس لیے کہ امریکی فوج  کو ان مقامات کے قریب جانے کا حق حاصل نہیں ہے‘‘۔

آخری وصیت

آیت اللہ حکیم نے اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں نماز جمعہ کے دوران امیر المومنین (ع) کے صحن مبارک میں اپنے ملک کے افراد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:’’عراق کے لوگ اتحاد اور بھائی چارگی کے ساتھ اپنے ملک کے اندر صلح اور امن و امان برقرار کر سکتے ہیں” اس ملک کے آئندہ وزیر کے انتخاب کے لیے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ’’عراق کے مستقبل وزراء کو نیک و صالح افراد میں سے ہونا چاہیے اور تمام گروہوں اور اقوام سے منتخب کیے جائیں تاکہ اپنی تمام کو ششوں سے عراق کے لوگوں کی مشکلات حل کرسکیں‘‘۔

آخری پرواز

عالم ملکوت کی طرف پرواز کا وقت پہنچ چکا تھا نماز گذاروں کی پاکیزہ روحیں بھی آہستہ آہستہ  اپنے رہبر اور رہنما کے ساتھ پرواز کرنے کے لیے آمادہ ہو رہی تھیں عروج اور بلندی کے لمحات قریب  تھے اور وہ خبر آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے :’’نجف اشرف میں امام علی علیہ السلام کے حرم مطہر کے پاس  ایک شدید کار بم دھماکے کی وجہ سے آیت اللہ  سید محمد باقر حکیم اور ان کے ساتھ ۷۲ جانثار نمازی شہید ہو گئے اور ۲۳۰ لوگ زخمی ہو گئے۔ اور مرقد مطہر امام علی علیہ السلام  کی دیوار کا ایک حصہ بھی مسمار کر دیا گیا۔ اور بہت سارے نماز گذار اس کے نیچے دب گئے۔ دھماکہ خیز مواد سے بھری کار روضہ امام(ع) کے جنوبی حصہ کی طرف پارک تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن آیت اللہ حکیم کے اس دروازے سے رفت و آمد کی پوری اطلاع رکھتے تھے۔



دیدگاهها بسته شده است.