کاروان حسینی کے کربلا میں داخلہ کا واقعہ

e47ebd28653bb0dc301f0976b3644498

کاروان حسینی کے کربلا میں داخلہ کا واقعہ

جامعه(کوئٹہ)  کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد کہ بنی امیہ نے امام حسین علیہ السلام کو یزید کی بیعت کرنے پر مجبور کیا ۲۸ رجب سن ۶۰ ہجری کو آپ مدینہ چھوڑکر مکہ میں پناہ گزیں ہوئے حرم الہی میں امان حاصل کی، ماہ شعبان، رمضان، شوال اور ذی القعدہ چار مہینے خانہ خدا کے جوار میں گزارے اور ذی الحجۃ کے شروع ہوتے ہی حج کے لیے احرام بھی باندھ دیا۔

دوسری جانب، عمرو بن سعید بن عاص کو یزید ملعون نے حکم دیا کہ امام کو مکہ میں گرفتار کر لیا جائے یا ان کے ساتھ جنگ کی جائے۔ عمرو بن سعید اس منحوس قصد کو لے کر ۸ ذی الحجہ یعنی ’’یوم ترویہ‘‘ کو مکہ پہنچ گیا۔
امام علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ ان دشمنوں کے نزدیک اللہ کے گھر کی کوئی حرمت نہیں ہے لہذا آپ نے حج تمتع کو نامکمل چھوڑ دیا اور اسے عمرہ مفردہ میں تبدیل کر کے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کر لیا۔ امام علیہ السلام کا یہ منصوبہ بنانے کا مقصد جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ’’اللہ کے گھر کی حرمت کی حفاظت‘‘ تھا۔ آپ نے جناب محمد حنفیہ کے جواب میں جو انہوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے سے منع اور اسی شہر میں رہنے کی تاکید کی تھی فرمایا: اے برادر! میں ڈرتا ہوں کہ یزید کہیں مخفی طور پر حرم الھی میں میرا قتل کرا دے اور میرے قتل سے خانہ خدا کی حرمت پامال ہو جائے‘‘۔ نیز امام علیہ السلام نے کچھ دوسرے افراد جیسے ابن عباس، فرزدق اور ابن زبیر کہ انہوں نے بھی امام سے مکہ میں ٹھہرنے کی درخواست کی، کے جواب میں بھی فرمایا: خانہ خدا سے ایک بالشت دور بھی اگر میں قتل ہو جاوں اور مکہ کی حرمت میری وجہ سے پامال نہ ہو تو یہ بہتر ہے‘‘۔
بعد میں جب عبد اللہ بن زبیر کے یزید کے خلاف قیام کے دوران، بنی امیہ نے خانہ کعبہ پر سنگ باران کر کے اسے نذر آتش کیا اور عبد اللہ کو مسجد الحرام میں قتل کیا تب معلوم ہوا کہ ابن عباس اس ذہانت اور ابن زبیر اپنی اس چالاکی کے باوجود بھی غلط سوچ رہے تھے جبکہ امام علیہ السلام مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے تھے اور دشمنوں کی سازشوں سے بخوبی واقف تھے۔
بہر حال، امام علیہ السلام نے اس وقت جب تمام حاجی مناسک حج کی انجام دہی کے لیے منیٰ کی طرف جا رہے تھے، خانہ خدا کا طواف کیا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی بجا لائی اور تقصیر انجام دے کر احرام عمرہ سے خارج ہو گئے اور کوفہ کی طرف چل پڑے۔
کیا خوب کہا شاعر نے:
ما کاروان کعبہ ای عشقیم، ھر کجا
روآوریم، کعبہ بُوَد روبروی ما
ماییم کعبہ ای دل عشاق باوفا
ھر جا رویم کعبہ کند جستجوی ما
ترجمہ: ’’ہم عشق کے کعبہ کا کارواں ہیں، جس طرف اپنا رخ کریں گے ہمارے سامنے کعبہ ہو گا ہم ہیں باوفا عاشقوں کے دل کا کعبہ، ہم جہاں جائیں گے کعبہ ہماری تلاش میں وہاں آئے گا‘‘۔
جونہی یہ خبر جناب محمد حنفیہ کو ملی تو فورا خود کو کاروان حسینی تک پہنچایا اور امام علیہ السلام کی سواری کی لگام پکڑ لی اور کہا: اے بھائی! کیا ہوا کہ اتنی جلدی سے نکل پڑے؟ آپ نے فرمایا: ’’ کل رات خواب میں رسول خدا کو دیکھا فرما رہے تھے: اے حسین! چلے جاو کہ خدا چاہتا ہے آپ کو کشتہ دیکھے‘‘۔ محمد حنفیہ نے کہا: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پس ان بچوں اور عورتوں کو کیوں اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہو؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: نانا نے یہ بھی فرمایا کہ خدا چاہتا ہے انہیں اسیر دیکھے‘‘۔
احرام ما کفن شود اندر منای عشق
خون گلوی ما شود آنجا وضوی ما
ما تشنہ ی شھادت عشقیم، می رویم
تا پر شود ز خون دل ما، سبوی ما
ترجمہ: ’’ہمارا احرام عشق کے منیٰ میں ہمارا کفن بنے اور ہم اپنی گردنوں کے لہو سے وضو کریں۔ ہم راہ عشق میں شھادت کے پیاسے ہیں، ہم جا رہے ہیں تاکہ اپنے خون دل سے اپنے جام پُر کری‘‘۔
یقیناً امام علیہ السلام نے حرم الہی کی حرمت کو بچانے، رسول خدا کے حکم کی تعمیل اور دین الہی کو حیات جاویداں عطا کرنے کی خاطر اپنے اہل و عیال اور چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ کو چھوڑا اور عراق کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ مکہ سے نکلنے کے دن کو بعض تاریخوں نے آٹھ ذی الحجہ جبکہ ابن قولویہ نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے سات ذی الحجہ بیان کیا ہے۔
ما را منای عشق، صف کربلا بود
رنگین شدہ فرات ز خون گلوی ما
ترجمہ: ’’ہمارے عشق کا منیٰ، میدان کربلا ہے فرات ہماری گردنوں کے خون سے رنگین ہو گی‘‘۔
امام علیہ السلام کوفہ کی جانب جا رہے تھے لیکن کوفہ کے نزدیک پہنچتے ہی حر بن یزید ریاحی اور ان کے سپاہیوں جو ابن زیاد کی طرف سے امام کا راستہ روکنے پر مامور تھے نے امام کا راستہ روک دیا۔( جس کی تفصیل بعد کے مصائب میں بیان کی جائے گی)
امام علیہ السلام اور حر ریاحی کے درمیان طولانی گفتگو ہوئی اور آخر کار حر نے کہا: اب جب آپ کو کوفہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا تو کوئی ایسا راستہ انتخاب کریں جو نہ کوفہ کی جانب جاتا ہو نہ مدینہ کی طرف تاکہ میں اپنے امیر کو خط لکھ سکوں۔
امام علیہ السلام نے قادسیہ کا راستہ انتخاب کیا۔ آگے آگے حسینی قافلہ اور پیچھے پیچھے یزیدی لشکر، آخر کار دو محرم کو آپ جب نینوا کے قریب پہنچے تو ابن زیاد کی طرف سے حر کو ایک خط ملا جس میں لکھا ہوا تھا:’’ جونہی میرا خط تمہارے پاس پہنچے حسین کو وہیں روک دینا اور اس پر سختی شروع کر دینا اور اسے پانی سے دور بیابان میں ٹھہرنے پر مجبور کر دینا۔‘‘۔
حر نے حکم کے مطابق امام اور ان کے ساتھیوں پر سختی شروع کر دی تاکہ انہیں اسی بیابان میں پانی اور بستی سے دور ٹھہرنے پر مجبور کرے۔ امام نے اس سے فرمایا: واے ہو تم پر! چھوڑو مجھے تاکہ میں کسی بستی اور آبادی میں قافلہ روکوں۔ حر نے کہا: نہیں، خدا کی قسم یہ نہیں ہو سکتا۔ ابن زیاد نے اس قاصد کو مجھ پر جاسوس بنا کر بھیجا ہے لہذا آپ کو یہیں ٹھہرنا ہو گا۔
امام کے ایک ساتھی زہیر آگے بڑھے اور کہا: اے فرزند رسول! اس جماعت کے ساتھ ابھی جنگ آسان ہے ان لوگوں کی نسبت جو بعد میں ان کے ساتھ ملحق ہوں گے۔ اجازت دیں ہم ان کا یہیں صفایا کر دیں۔ امام نے فرمایا: میں جنگ کا آغاز نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد اس سرزمین کا نام معلوم کیا: کہا گیا اس جگہ کا نام ’’عقر‘‘ ہے دوبارہ پوچھا: کیا اس کا کوئی دوسرا نام بھی ہے؟ کہا: اسے نینوا بھی کہتے ہیں۔ کہا: کیا اس کا کوئی اور نام بھی ہے؟ کہا: ہاں اس کو کربلا بھی کہتے ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا: اللھم انی اعوذ بک من الکرب و البلاء۔ ھذہ ارض کرب و بلا۔ یہ رنج و الم کی جگہ ہے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا: یہیں پر قیام کریں گے کہ میرے نانا نے مجھے خبر دی تھی کہ ہمارا خون اسی سرزمین پر بہایا جائے گا اور ہمیں یہیں دفن کیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ اسی بے آب و گیاہ زمین پر خیمے لگائے جائیں۔
کربلا بر تو مہمان رسیدہ
وعدہ ی وصل جانان رسیدہ
کربلا وا کن آغوش خود را
بر پذیرایی آل طاھا
ترجمہ: اے کربلا تمہارے پاس مہمان آیا ہے، طفلی کا وعدہ نبھانے آیا ہے، اے کربلا اپنی آغوش کو پھیلا کر آل طہٰ کی پذیرائی کر دے۔
دوسری روایت میں کچھ یوں بھی نقل ہوا ہے کہ جب امام علیہ السلام کو کہا گیا کہ یہ جگہ کربلا ہے تو آپ نے اس جگہ سے ایک مٹھی خاک اٹھائی اور اسے سونگھا اور گریہ کرنے لگے، کہا: ام سلمہ نے مجھے خبر دی تھی کہ ایک دن جبرئیل رسول خدا کے پاس تھے اور میں آپ کو رسول خدا کے پاس لے گئی اور آپ رو رہے تھے۔ پیغمبر نے آپ کو اپنی گود میں لیا اور چپ کرایا: جبرئیل نے کہا: کیا آپ انہیں بہت چاہتے ہیں؟ پیغمبر نے فرمایا: ہاں۔ جبرئیل نے عرض کیا: آپ کی امت ان کو قتل کر ڈالے گی۔ اس کے بعد کربلا کی خاک پیغمبر کو دکھائی۔ خدا کی قسم یہ وہی خاک ہے‘‘۔
نیز روایت میں ہے کہ جب امیر المومنین علی علیہ السلام صفین کی طرف جا رہے تھے تو نینوا کے قریب پہنچے پوچھا یہ کون سے جگہ ہے کہا گیا: کربلا۔ امیر المومنین زمین پر بیٹھ کر اتنا روئے کہ اشک زمین پر جا کر گرے۔
آییے ہم بھی پیغمبر(ص) اور علی(ع) کے ساتھ اس حسین(ع) کی مصیبت پر گریہ کریں جس کے لیے آسمان و زمین گریاں ہے۔
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔

منابع و مآخذ
ا: سید بن طاووس، اللھوف فی قتلی الطفوف، قم، منشورات الرضیٰ، ۱۳۶۴
۲: شیخ عباس قمی، نفس المھموم، ترجمہ و تحقیق علامہ ابوالحسن شعرانی، قم، انتشارات ذوی القربیٰ، ۱۳۷۸

 



دیدگاهها بسته شده است.