بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جامعہ امام صادق ؑ میں انیسویں اور اکیسویں شب کی طرح شب قدر کی تیسری رات بھی شب بیداری کا پروگرام منعقد کیا گیا جس میں دہر کے مختلف علماء کرام کے علاوہ کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت کی اور اس پروگرام میں بھی جوانوں کی شرکت بہت واضح نظر آئی۔
پروگرام کے آغاز میں حجتہ الاسلام ڈاکٹر خرّمی نے مومنین سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے اکیسویں شب میں تقریر کے موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’ میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک قرآن اور دوسرا اہلبیتؑ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے‘۔ اس حدیث میں جو نکتہ اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے کہ’ کوئی خشک و تر ایسا نہیں جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو‘(الانعام/۵۹)۔ اب اس آیت کے پیش نظر اہلبیت مفسّر و مبیّن قرآن ہیں اور لوگوں کیلئے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں اس لیے کہ ہر چیز کی وضاحت و تفسیر ضرورت ہے لہذا اہلبیت ؑ مفسّر قرآن ہیں۔ چونکہ قرآن صامت (خاموش) ہے اور اہلبیت ؑ ناطق (زبان) قرآن ہیں۔
جناب مولانا خرّمی نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ رسول اکرم ﷺکی رسالت بعد کوئی ایسا جانشین ہو جو اس مقصد کو آگے بڑھائےاور لوگوں کیلئے احکام کو کسی کمی و زیادتی کے بغیر بیان کرے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ثقیفہ بنی ساعدہ کی بغاوت کے نتیجے میں قرآن و اہلبیت ؑ کے درمیان فاصلوں کو بڑھایا جاتا رہا یہاں تک کہ تیسرے خلیفہ کے دور میں یہ انحراف و تحریف اپنے عروج تک پہنچ گیا۔وہ اسلام جو برابری اور برادری کا پیغام لیکر آیا تھا اور قرآن نے اللہ سے تقرب کا معیار صرف تقویٰ کو قرار دیا ہے، اس معیار کو پس پشت ڈال دیا گیا اور باقاعدہ طور پر اسلامی نظام ملوکیت میں تبدیل ہوگیا اور اسلامی معاشرے میں ایک طبقاتی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
اپنی تقریر کے آخر میں ڈاکٹر خرّمی نے خوارج کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ سوریا اور عراق میں ہو رہا ہے وہ خوارج کے جرائم کی یاد تاذہ کرتی ہے جہاں مولا علی ؑ کے ماننے والوں کو خوارج نے نہایت سفاکی اور درندگی سے قتل کیا اور آج النصرۃ اور داعش جیسے تکفیری ٹولے انہی خوارج کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
اس پروگرام کے دوسرے خطیب پرنسپل جامعہ امام صادق ؑ حجتہ الاسلام و المسلمین محمد جمعہ اسدی تھے جنہوں نے مومنین سے اور بطور خاص جوانوں اور نوجوانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آج اسلامی معاشرے میں اخلاقی اقدار ناپید ہوتی جارہی ہےلہذا جوانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو زیور اخلاق سے آراستہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مولا علی ؑ باوجود اس کے شجاع ترین انسان تھے اور کبھی بھی انہوں نے دشمن کو پشت نہیں دکھائی اور ہر میدان میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے لیکن جب محراب عبادت میں اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوتے تو اس طرح آہ و زاری کرتے جیسے کوئی بوڑھی ماں اپنے جوان بیٹے کی میت پر روتی ہے۔
انہوں نے اس رات کو تکمیل قرآن کی رات قرار دیااور جوانوں کو نصیحت کی کہ قرآن کو خوبصورت انداز میں تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ مفاھیم اور معانی قرآن سے بھی آشنا اور مانوس ہونے کی کوشیش کریں۔
انہوں نے بھی قرآن اور اہلبیت ؑ کی جدائی کی تحریف و انحراف کا باعث قرار دیا یعنی جب قرآن کو اہلبیت ؑ سے جدا کر دیا جائے تو معاشرہ بہت تیزی سے انحراف کی طرف جاتا ہے اور نتیجہ آج مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی اور ایک دوسرے کی تکفیر کی صورت میں نکلتا ہے اور مولائے متقیان اسی تفرقہ بازی کا شکار ہوئے اور ایک تکفیری ٹولے کے ہاتھوں امام کی شہادت ہوئی۔ لیکن اگر دنیا کے تمام مسلمان متحد ہوجائیں تو وہ دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے امام خمینی ؒ کے اس قول کو دہرایا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر دنیا کا ہر ایک مسلمان اسرائیل پر ایک ایک بالٹی پانی گرائے تو اسرائیل خود بخود اس سیلاب میں بہہ کر نا بود ہوجائے گا۔
انہوں نے مذید کہا کہ آج وحدت کی ضرورت ہر دور سے ذیادہ ہے ۔ آج اگر اسرائیل بیت المقدس پر قابض ہے اور دنیا کے اکثر مسلمان خصوصاً مسلمان حکمران اور خاص طور پر عرب حکمران خاموش تماشائی بنے رہے تو کل مسجد الحرام (مکّہ ) پر بھی مصیبت آسکتی ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو خادم الحرمین کہتے ہیں وہ مسجد اقصیٰ کیلئے آواز اٹھائیں ورنہ آنے والے کل میں خود انکی حکومتوں کو خطرہ لاحق ہے۔
اس پروگرام میں شب قدر کی مناسبت سے دعا و مناجات خصوصاً دعائے جوشن کبیر اور اعمال قرآن کے ساتھ روحانی ماحول میں مومنین نے شب قدر کے نمازوں کو بھی ادا کیا اور آخر میں جامعہ امام صادق ؑ کی جانب سے مومنین کیلئے باقاعدہ سحری کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ پروگرام اپنت تمام معنویت اور روحانیت کے ہمراہ صبح 3:30 بجے اختتام کو پہنچا۔