امام موسی کاظم(ع) کی شہادت بصرہ کے قید خانے میں

1360035258.3696-a

کوئٹہ ۔ جامعہ ۔  اقتباس از کتاب: ائمہ اہل بیت علیہم السلامکی سیرت سے خوشبوئے حیات،

تالیف باقر شریف قریشی

اس دور کی طاغوت حکومت نے امام ؑ کو بصرہ منتقل کر دیا اور بصرہ کے گورنر عیسیٰ بن ابوجعفر کو حکم دیا کہ آپ ؑ کو ایک گھر میں قید کردیا جائے اور اس قید خانہ کے دروازے بند کر دئے جائیں اس نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد ان دروازوں کو صرف دو حالتوں میں کھولا جاتا تھا ایک طہارت کیلئے اور دوسرے کھانا دینے کیلئے ۔

قید خانے میں آپ ؑ کا عبادت میں مشغول رہنا

امام ؑ خدا وند عالم کی عبادت میں مشغول رہتے تھے دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے، آپ ؑ نے قید خانہ میں کو ئی جزع و فزع نہیں کی ،آپ ؑ نے اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا اللہ کی نعمت جانا ، آپ ؑ اس پر اللہ کا اس طرح شکر ادا کر تے تھے :’’خدایا ! تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے یہ سوال کرتا تھاکہ مجھے اپنی عبادت کاکوموقع فراہم کر ،خدایا ! تو نے ایسا کردیالہٰذا تیرے لئے ہی حمد و ثناہے۔عیسیٰ کو امام ؑ کو قتل کرنے کے لئے روانہ کرنا ہارون سر کش نے بصرہ کے گورنر عیسیٰ کو امام ؑ کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اس کو یہ بات بہت گراں گذری ،اس نے اپنے حوالیوں و مو الیوں کو بلاکر اس سلسلہ میں مشورہ کیا تو اُن سب نے اُس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور اُس نے ہارون کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ مجھے ایسا کرنے سے معاف کیجئے جس کا مضمون کچھ یوں ہے :موسیٰ بن جعفر ایک طولانی مد ت سے میرے قید خانہ میں ہیں اور میں تجھ کو اُن کے حالات سے آگاہ کرتا رہا ہوں ،اور میری آنکھوں نے اس طویل مدت میں امام ؑ کو عبادت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا ،اور جو کچھ امام ؑ اپنی دعا میں کہتے تھے وہ بھی سنا ہے، انھوں نے کبھی بھی میرے اور تیرےخلاف کو ئی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی کبھی برا ئی کے ساتھ یاد کیا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے نفس کیلئے مغفرت و ر حمت کی دعا کر تے تھے آپ جس کو چا ہیں میں ان کو اس کے حوالے کردوں یا ان کو چھوڑ دوں میں ان کو قید کرنے سے پریشان ہو گیا ہوں۔امام ؑ کو فضل کے قید خانہ میں بھیجناہارون رشید نے عیسیٰ کو بلاکر کہا کہ امام ؑ کو بغداد میں فضل بن ربیع کے قید خانہ میں منتقل کر دیا جائے جب امام وہاں پہنچے تو اُس نے آپ ؑ کو اپنے گھر میں قید کردیاامام ؑ عبادت میں مشغول ہوگئے آپ ؑ دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،فضل امام ؑ کی عبادت کو دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا ،وہ اپنے اصحاب سے امام ؑ کے ذریعہ اللہ کی عظیم اطاعت کے بارے میں باتیں کر تا ،عبد اللہ قزوینی (جو شیعہ تھے ) سے روایت ہے : ابن ربیع فضل کے پاس پہنچا تو وہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا ، اُس نے مجھ سے کہا :میرے قریب آؤ میں اُس کے ایک دم قریب ہو گیا تو اُس نے مجھ سے کہا : گھر میں دیکھو ۔

جب عبد اللہ نے گھر میں دیکھا تو اس سے فضل نے کہا :تم گھر کے اندر کیا دیکھ رہے ہو ؟میں نے کہا :میں ایک لپٹا ہوا کپڑا پڑا ہوا دیکھ رہا ہوں صحیح طریقہ سے دیکھو ۔تو میں نے ایک شخص کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔کیا تم اس کو پہچانتے ہو ؟نہیں ۔

یہ تمہارے مو لا و آقا ہیں ۔میرے مو لا کون؟تم میرے سامنے لا علمی کا اظہار کیوں کر رہے ہو !میں لا علمی کا اظہار نہیں کر رہاہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ میرے مولا کون ہیں ؟یہ ابو الحسن مو سیٰ بن جعفر ؑ ہیں ۔پھر فضل عبد اللہ سے امام ؑ کی عبادت کے متعلق یوں بیان کر نے لگا :میں نے رات دن میں کوئی ایسا وقت نہیں دیکھا ،میں نے امام کو اُس حالت میں نہ دیکھا ہوجس کی میں نے تمہیں خبر دی ہے ، امام ؑ صبح تک نمازیں پڑھتے رہتے ہیں ،نماز کے بعد آفتاب کے طلوع ہونے تک دعائیں پڑھتے ہیں ،اس کے بعد زوال آفتاب تک سجدہ میں رہتے ہیں زوال کے وقت کو ئی اُن کو آکر بتا تا ہے مجھے نہیں معلوم کہ کب غلام اُن کو آکر کہتا ہے :زوال کا وقت ہو گیا ہے ،جب وہ سجدہ سے اٹھتے ہیں تو تجدید وضو کے بغیرپھر نماز پڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔اور میں جانتا ہوں کہ وہ سجدوں میں ہرگز نہیں سوتے ،نہ ہی آپ ؑ پر غفلت طاری ہو تی ہے اور نماز عصر تک آپ ؑ اسی طرح رہتے ہیں اور جب عصر کی نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد آپ ؑ سجدہ کرتے ہیں اور سورج کے غروب ہونے تک سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں ،جب سورج غروب ہوجاتا ہے توآپ سجدہ سے اٹھتے ہیں اور کسی حدث کے صادر ہوئے بغیر نماز مغرب بجالاتے ہیں آپ ہمیشہ نمازعشاء تک نمازاور تعقیباتِ نماز پڑھتے تھے ،اس کے بعد نماز عشاء بجالاتے اور نماز عشا پڑھنے کے بعد آپ ؑ کچھ تناول فرماتے ، اس کے بعد تجدید وضو کرتے پھر سجدہ میں چلے جاتے اس کے بعد سجدہ سے سر اٹھاتے تو کچھ دیر کیلئے سوجاتے ،اس کے بعد اٹھ کر تجدید وضو کرتے اور طلوع فجر تک نماز پڑھتے اس کے بعد نماز صبح بجالاتے تھے ۔جب سے میرے پاس ہیں اُن کا یہی طریقہ ہے ۔

جب عبد اللہ نے فضل کو امام کا یہ اکرام و تکریم کر تے دیکھا تو اس کو امام ؑ کی شان میں کو ئی گستاخی نہ کر نے کی یوں تاکید کر نے لگا :اللہ کا تقویٰ اختیار کر،اور اس سلسلہ میں کو ئی ایسا کام نہ کرنا جس سے تیری نعمت زا ئل ہو جائے ،اور جان لے ! کسی نے کسی کیلئے کو ئی برا ئی نہیں کی مگر یہ کہ اس کی نعمت زا ئل ہو گئی ۔فضل نے کہا : مجھے کئی مرتبہ آپ ؑ کو قتل کر نے کا حکم دیا گیا لیکن میں نے قبول نہیں کیا ،اور تم جانتے ہو کہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔اگر مجھے قتل بھی کر دیا جائے تو بھی جو انھوں نے مجھ سے کہا وہ انجام نہیں دوں گا ۔ امام ؑ کا ملول و رنجیدہ ہونا امام ؑ قید خانہ میں ایک طویل مدت تک رہنے کی وجہ سے ملو ل و رنجیدہ ہو گئے ،اور آپ ؑ نے خدا سے ہارون کے قید خانہ سے نجات عطا کر نے کی التجا کی ،آپ ؑ نے رات کی تاریکی میں چار رکعت نماز ادا کی اور خدا سے یہ دعا کی :’’اے میرے سید و آقا !مجھے ہارون کے قید خانہ سے نجات دے ،اس کے قبضہ سے مجھے چھٹکارا دے ،اے ریت اور مٹی سے درخت کو اُگانے والے ، اے لوہے اور پتھر سے آگ نکالنے والے ، اے گوبر اور خون سے دودھ پیدا کر نے والے ،اے مشیمہ(رحم میں بچہ کی جھلی) اور رحم سے بچہ پیدا کرنے والے ،اے احشاء اور امعاء سے روح کو نکالنے والے مجھے ہارون کے ہاتھ سے نجات دلادے ۔اللہ نے اپنے ولی کی دعا کو مستجاب کرلیااور آپ ؑ کو باغی ہارون کے قید خانہ سے اس خواب کے ذریعہ رہائی دلا ئی جو اس نے دیکھا تھا۔

امام ؑ کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں بھیجنا

ہارون نے امام ؑ کو دوسری مرتبہ گرفتار کرکے فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں ڈال دیا،فضل نے امام ؑ کی بہت ہی خاطر و مدارات کی جس کا آپ ؑ نے بقیہ دوسرے قید خانوں میں مشاہدہ نہیں کیا تھا ، ہارون کے ایک جاسوس نے فضل کے ذریعہ امام کی خاطر و مدارات کی خبر ہارون کو دی، جس کو سُن کر ہارون طیش میں آگیا، اس نے فضل کو وہاں سے ہٹا کر سو تازیانے لگانے کی خاطر ایک سپاہی روانہ کیا اور جس وقت وہ تازیانے لگانے لگا اس وقت ہارون رشید ،اپنے محل میں تھا وہیں پر وزراء ،لشکر کے سرداراور لوگوں کا ہجوم اکٹھا تھا ،رشید نے بلند آواز میں کہا :لوگو ! فضل بن یحییٰ نے میری اور میرے امر کی مخالفت کی ہے لہٰذا میں اس کو لعنت کا مستحق سمجھتا ہوں اس لئے تم سب اُس پر لعنت کرو ۔چاروں طرف سے مجمع سے فضل پر لعنت و سب و شتم کی آوازیں بلند ہو نے لگیں ،وہاں پر یحییٰ بن خالد بھی مو جود تھا جو جلدی سے رشید کے پاس پہنچا اور اُس نے یہ کہکر اس کو خوش کیا :اے امیر المو منین فضل سے ایک چیز صادر ہو گئی ہے اور اُس کے لئے تو میں ہی کا فی ہوں ۔

 ہارون رشید خوش ہو گیا، اس کا غصہ دور ہو گیا اور اُس نے یہ کہکر اپنی خو شی کا اظہار کیا : فضل نے ایک امر میں میری مخالفت کی تو میں نے اس پر لعنت کر دی ہے اور اس نے تو بہ کرلی تو ہم نے بھی اس کی توبہ قبول کر لی ہے لہٰذا تم سب جاؤ۔ہر طرف سے یہ آواز بلند ہو نے لگی وہ لوگ ہارون کی اس متضاد اور دوہری سیاست کی اطاعت اور تا ئید کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے :اے امیر المو منین!،ہم اس سے محبت کر تے ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہیں جس کے آپ دشمن ہیں اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔امام ؑ ،سندی کے قید خانہ میںرشید نے امام ؑ کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ سے سندی بن شاہک کے قید خانہ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ،وہ مجوسی اور بہت خبیث جلّاد تھا ،نہ اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ ہی روز قیامت کو مانتا تھا ،اس نے امام ؑ پر بے انتہا سختی کی یہاں تک کہ امام ؑ کوزہر دیدیا ،جو آپ ؑ کے پورے بدن میں سرایت کر گیا ، امام ؑ دردو الم سے کراہنے لگے یہاں تک آپ ؑ نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ،آپ ؑ کی شہادت سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ، آخرت آپ ؑ کے نور سے منور ہو گئی ،خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ امام ؑ پر زمانہ کے اُس سر کش ہارون کی طرف سے مصائب و آلام کے کیا کیا پہاڑ ٹوٹے، ہارون خاندان نبوت سے بہت زیادہ کینہ وحسد رکھتا تھا اور اُن کا دشمن تھا ۔

امام ؑ کی شہادت کے بعد سرکاری انتظامیہ ہارون کو امام ؑ کے قتل سے برئ الذمہ قرار دینے کیلئے آپ ؑ کی شہادت کے اسباب کے سلسلہ میں تفتیش کر نے لگی، عمرو بن واقد سے روایت ہے کہ رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد سندی بن شاہک کا میرے پاس خط پہنچااس وقت میں بغداد میں تھا، میں نے خیال کیا کہ کہیں یہ میرے ساتھ کو ئی برا قصد تو نہیں رکھتا ہے ،میں نے اپنے اہل و عیال کو یہ سب دیکھ کر وصیت کی اور کہا : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،پھر میں سوار ہوکر اس کے پاس پہنچا ، جب اُس نے مجھے دیکھا تو مجھ سے کہنے لگا :اے ابو حفص شاید آپ ہم سے گھبرا گئے ہیں ؟ ہاں ۔ گھبراؤ نہیں ،خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔میرے اہل و عیال کے پاس ایک قاصد بھیج دے تاکہ وہ جا کر انھیں بتا ئے کہ کو ئی بات نہیں ہے ۔

ہاں ۔جب وہ مطمئن ہوگیا تو سندی نے اُس سے کہا : اے ابو حفص! کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں یہاں کیوں بلا بھیجا ہے ؟نہیں ۔کیا تم مو سیٰ بن جعفر کو جانتے ہو ؟ہاں میں انھیں پہچانتا ہوں اور کچھ زمانہ سے میری اور اُن کی دو ستی ہے ۔کیا بغداد میں کوئی یہ قبول کر لے گا کہ تم اتھیں جا نتے ہو ؟ہاں ۔پھر اُس نے اُن لوگوں کے نام بتائے جو امام کو جانتے تھے ،سندی نے ان سب کو بلابھیجا جب وہ آگئے تو اس نے اُن سے کہا :کیا تم کسی ایسی قوم کو جانتے ہو جو مو سیٰ بن جعفر کو پہچا نتی ہے ؟تو انھوں نے اُس قوم کے نام بتائے جو امام مو سیٰ بن جعفر ؑ کو پہچا نتی تھی تو اُس قوم کو بھی بلایا گیا یہاں تک کہ پوری رات گذر گئی اور نور کا تڑکا ظاہر ہوا تواس کے پاس پچاس سے زیادہ شاہد جمع ہوچکے تھے اُس نے منشی سے اُن سب کے نام، پتے، کام اور خصوصیات لکھوائے ،پھر وہ وہاں سے نکلا کچھ افراداُ س کے ساتھ ساتھ تھے تو اس نے عمرو بن واقد سے کہا :اے ابو حفص کھڑے ہوجاؤ اور مو سیٰ بن جعفر ؑ کے چہرے سے کپڑا ہٹاؤ ۔عمرو نے کھڑے ہوکر آپ ؑ کے چہرۂ اقدس سے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ آپ ؑ کی روح پرواز کرگئی ہے، اس وقت سند ی نے اس جماعت سے مخاطب ہو کر کہا : اِن کی طرف دیکھو ،وہ اُن کے قریب ہوا اور اُن سے کہا :تم گواہ رہنا کہ یہ موسیٰ بن جعفر ہیں ؟ان لوگوں نے کہا :ہاں ۔پھر اس نے اپنے غلام کو امام ؑ کے جسم سے لباس اُتارنے کا حکم دیا ،غلام نے ایسا ہی کیا،پھر اُس نے قوم سے مخاطب ہو کر کہا :کیا تم ان کے جسم پر کو ئی ضرب کا نشان دیکھ رہے ہو ؟نہیں ۔پھر اُن کی گو ا ہی لکھی اور وہ سب پلٹ گئے ،اس کے بعد اس نے فقہا اور بڑی بڑی شخصیتوں کو بلاکر امام مو سیٰ بن جعفر ؑ کے قتل سے ہارون کے برئ الذمہ ہونے کی گو اہی دلوا ئی ۔امام ؑ کی نعش مبارک بغداد کے پُل پرامام ؑ کی نعش مبارک بغداد کے پُل پر رکھ دی گئی تاکہ دور و نزدیک والے سب دیکھ لیں جب گزرنے والوں کی بھیڑہٹی توامام ؑ کا روئے مبارک ظا ہر ہوا ،ایسا کرنے سے حکومت کا مقصد امام ؑ کی اہانت اورشیعوں کو ذلیل و رسوا کر نا تھا ،بعض شاعر کہتے ہیں :

مِثْلُ مُوْسیٰ یُرْمیٰ عَلیٰ الجِسْرِمَیْتاً لَمْ یُشَیِّعْہُ لِلْقُبُوْرِمُوَحِّدُ !حَمَلُوْہُ وَلِلْحَدِیْدِ بِرِجْلَیْہِ ھَزِیْجُ لَہُ الْاَھَاضِیْبُ تَنْھَدْ’’افسوس کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کی جیسی شخصیت کا جنازہ بغداد کے پُل پر لا کر رکھ دیا گیااور تشییع کے لئے کو ئی دیندار نہ آیا ۔آپ ؑ کا جنازہ اس عالم میں اٹھایا گیا کہ آپ ؑ کے پیروں میں لوہے کی بیڑیاں پڑی تھیں ‘‘۔ہارون رشید کی تمام کو ششیں خاک میں مل کر رہ گئیں امام ؑ ہمیشہ کیلئے زندۂ جا وید ہیں امام ؑ کا مرقد مطہرکو اللہ کے صالح و نیک بندوں میں ایک با عزت مقام حاصل ہے جس سے اللہ کی رحمت کی خوشبوئیں چاروں طرف پھوٹ رہی ہیں ،مسلمان امام ؑ کی زیارت کیلئے آتے ہیں اور ہارون کا نہ کو ئی نام و نشان ہے اور نہ ہی کوئی اس کو یاد کرنے والا ہے ،نہ اس کی کو ئی ضریح ہے جس پر کو ئی جائے ،وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابدی اندھیروں میں مدفون ہو گیا ،عنقریب خداوند عالم اُ س کا مشکل حساب لے گا جس جس ظلم و جور کا وہ مر تکب ہوا ہے ۔حکومت نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس سے بڑھ کر ضلالت کایہ ثبوت دیا کہ وہ بغداد کی سڑکوں پر نکل کر یہ اعلان کر یں :یہ مو سیٰ بن جعفر ؑ ہیں جن کے بارے میں شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اِن کوموت نہیں آئے گی دیکھو یہ مر گئے ہیں ۔اسی طرح انھوں نے یہ کہنے کے بجائے :یہ طیب ابن طیب کے فرزند ہیں دوسرے کلمات کہے ، سلیمان بن ابو جعفر منصور نے امام کی تجہیز کی اس کے دوستوں نے امام ؑ کی نعش مبارک سرکاری مزدوروں کے ہاتھوں سے لی اور یہ اعلان کیا :آگاہ ہوجاؤجو طیب ابن طیب مو سیٰ بن جعفر ؑ کے جنازے میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ حاضر ہو جائے ۔مختلف طبقوں کے لوگ امام ؑ کے جنازے میں شریک ہو نے کے لئے نکل پڑے ،لوگوں نے ننگے پیر آپ کی تشییع جنازہ کی جس کی بغداد میں کو ئی نظیر نہیں ملتی ہے ،سڑکوں پر بہت زیادہ بھیڑ تھی اور سب بہت زیادہ رنج و غم میں غرق تھے ،سلیمان اور اس کے افراد جنازے میں پیش پیش تھے جنازہ کو قریش کی قبروں کے پاس لایا گیا وہیں پر قبر کھودی گئی سلیمان قبر میں اُترے اور آپ ؑ کے جنازہ کو آپ ؑ کی ابدی آرام گاہ میں رکھا اور حلم علم ،کرامت اور بلند اخلاق کو زمین کے اندر چھپادیا ،سلام ہو اُن پر جس دن وہ پیدا ہوئے ،شہید ہوئے اور جس دن مبعوث کئے جا ئیں گے ۔



دیدگاهها بسته شده است.