سردار قاسم سلیمانی عالم اسلام کا فخر ہیں، ردعمل شدید ہوگا
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
درستگی فرمائیں۔ سردار قاسم سلیمانی ایران کے عسکری جرنیل نہیں بلکہ عالم اسلام کے ناقابل شکست سپہ سالار ہیں۔ ان کی شہادت ہمارے لیے باعث غم و افسوس سے زیادہ باعث فخر ہے اور باعث فخر ہونی بھی چاہیئے کیونکہ اپنی پوری عسکری زندگی میں جس جس محاذ پہ، میدان میں سردار قاسم سلیمانی وارد ہوئے، فتح و کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ بہت عجیب سی حقیقت ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ جتنی جنگوں میں گیا، شکست اور ناکامی اس کا مقدر بنی دوسری جانب سردار قاسم سلیمانی اپنی سپاہانہ زندگی میں جس محاذ پہ پہنچے، کامیاب و کامران رہے۔ ان کی خدمات فقط ایران کیلئے نہیں بلکہ عالم اسلام کیلئے تھیں، عالم اسلام کے دفاع و تحفظ کی تقریبا ً ہر جنگ میں وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ شریک رہے۔ شام کو اسرائیل سے محفوظ رکھنے کی جنگ ہو یا لبنان پہ مسلط کر دہ اسرائیل کی جنگ، عراق میں امریکی فتنے داعش کے خلاف جہاد ہو یا اسلامی جمہوریہ ایران کا امریکی نمک خواروں سے تحفظ۔ وہ ہر محاذ پہ دشمن کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ بنے۔ وہ اعلیٰ ترین عسکری کمان رکھنے کے باوجود ہمیشہ ہر اول دستے میں موجود رہے۔ جنگ ان کا پیشہ نہیں بلکہ مقاومت، دفاع مقدس ان کا اوڑنا بچھونا تھا۔ وہ القدس بریگیڈ کے مرکزی کمانڈر تھے، ان کی فورس فقط رہبر معظم کو جوابدہ تھی۔
امریکہ و اسرائیل اور ان کے برپا کئے گئے فتنوں (داعش وغیرہ) کے خلاف اگلے مورچوں پہ لڑنے والے جنگجوؤں کی خوشی اس وقت دیدنی ہوتی کہ عین دوران جنگ ان کا سپہ سالار اچانک سے ان کے درمیان موجود ہوتا۔ فن حرب و ضرب میں کمال رکھنے والے اس سپہ سالار کی شہادت سے یہ تو عیاں ہو گیا کہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی سردار قاسم سلیمانی کی عسکری ترکیبوں کا توڑ کرنے میں ناکام رہے اور اعلانیہ محاذ جنگ میں انہیں نقصان پہنچانے میں بھی نامراد رہے، جبھی غیر اعلانیہ محاذ پہ، سویلین آبادی کے اندر، پوشیدہ اور بزدلانہ حملے میں انہیں شہید کیا گیا۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ میدان جنگ میں گزارنے والے 63 سالہ سردار قاسم سلیمانی کیلئے شہادت سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ منزل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ایک جنگجو کیلئے اس سے بڑھ کر افتخار کیا ہو گا کہ حالت جنگ میں اسے اس طرح شہادت نصیب ہو کہ دشمن اس کا سامنا کرنے سے بھی عاجز ہو اور اس کے وجود سے بھی۔
دفاع مقدس سے ان کی وابستگی کا اندازہ لگانے کیلئے ان کی گفتگو کے چند کلمات ذیل میں پیش ہیں۔ اپنے ایک تفصیلی انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ ”آپ اگر تاریخ اسلام میں مختلف واقعات کی طرف دیکھین گے تو سمجھ جائینگے کہ امیرالممنین نے رسول اللہ کے بعد انہی کی اقتدا کی۔ جب امیرالمومنین نصیحت کرتے تھے، جب خط لکھتے تھے، جب خطاب کرتے تھے، ان کی بنیاد اور نمونہ عمل، پیغمبر کا دور، پیغمبر کا عمل اور ان کی سیرت ہوتی ہے۔ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جب کسی کی اقتدا کرنا چاہتے تھے، خود امیرالمومنین کو زندہ مثال کے طور پر اور سیرہ رسول کو عملی کرنے والے کے طور پر، اپنا نمونہ عمل قرار دیتے تھے۔ ہمارا دفاعِ مقدس بھی اسی جنس کا ہے۔ یعنی ان تمام مقدس دفاعوں کی نسبت، ماں کی طرح ہے۔ محور اور مرکز ہے۔”
” ہمارے دفاعِ مقدس میں روحانی امور، اعلی ترین شکل میں سامنے آئے۔ دینی تبلیغ، بہترین صورت میں انجام پائی۔ ایمانی اور عبادی امور اعلی ترین صورت میں کسی ذرہ برابر کج روی کے بغیر پیش کئے گئے۔ جانثاری اور شہادت بہترین شکل میں پیش کی گئی۔ بڑے عہدیداروں کے اپنے اندر افراد کے ساتھ برتا اور سلوک کو فقط اسلام کے ابتدائی دور کے ساتھ مقایسہ کیا جاسکتا ہے، لہذا اِن تمام باتوں میں دفاعِ مقدس ایک چوٹی کی طرح ہے۔ آپ البرز کی بلندیوں کو دیکھیں، اس کی لمبائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے، لیکن پھر بھی سب سے بلند چوٹی دماوند ہی کہلاتا ہے۔ البرز پہاڑی سلسلے میں سب سے اونچی چوٹی دماوند ہے۔ دفاع مقدس کی مثال اِن دیگر مقدس دفاعوں کی نسبت، البرز کے اس طویل پہاڑی سلسلے میں دماوند کی طرح ہے۔ دفاع مقدس کی اپنی ایک اونچائی ہے، جو اِن سب سے بلند ہے اور یہ سب اس کی نسبت دامنِ کوہ اور اس پہاڑی سلسلے کے پہاڑ ہیں۔”
ان کی شہادت کے ردعمل کی شدت کو لیکر دنیا بھر میں تبصرے جاری ہیں۔ ان کی شہادت کے ردعمل کی شدت کے پیش نظر امریکہ نے اپنے شہریوں سے فوری طور پر عراق چھوڑنے کی اپیل کی جبکہ امریکی اداروں کے مطابق سردار قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا براہ راست حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا۔ امریکی ایوان نمائندگان نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ حملے سے خطے میں کشیدگی خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ روس، چین، فرانس سمیت مختلف ممالک نے حملے کی مذمت کی۔ عراق کے نگران وزیراعظم نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکی حملے سے عراق میں تباہ کن جنگ کا آغاز ہو گا۔ شام نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن مشرق وسطی میں تنازعات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ حملے سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ حکومت فرانس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حملے نے دنیا کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے پیغام دیا ہے کہ متعلقہ فریقین بالخصوص امریکا مزید کشیدگی سے بچنے کیلئے تحمل کا مظاہرہ کریں۔
امریکہ اور اس کے دوست ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ مقاومت اسلامی اور دفاع مقدس کے انمٹ نقش کو عراق میں نشانہ بنایا گیا ہے تو ممکنہ طور پر اس کا ردعمل عراق کی زمین پہ ملے گا، نیز یہ کہ سردار قاسم سلیمانی کا تعلق چونکہ ایران سے تھا تو ان کے قتل کا ردعمل بھی فقط ایران سے ہی ملے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ شہید سردار قاسم سلیمانی عالم اسلام کے سپہ سالار تھے، ان کے قتل کا ردعمل دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی ملک، تحریک، تنظیم یا انفرادی شخص کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کو مل سکتا ہے۔ سردار قاسم سلیمانی القدس بریگیڈ کے سربراہ تھے جوکہ جوکہ بیت المقدس کی آزادی کا عزم رکھتی ہے۔ بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ وہ قبلہ اول کہ جس کی آزادی کے عزم سے دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں و تنظیمیں پیوستہ ہیں۔ استعمار کے خلاف جاری دنیا بھر کی نظریاتی تحریکوں کیلئے سردار قاسم سلیمانی ایک مثال اور راستہ تھے ۔ امریکہ نے اپنے جارحانہ حملے میں ان تمام حریت پسند تحریکوں کو نشانہ بنایا ہے۔
سردار قاسم سلیمانی کے لہو کی تاثیر ملاحظہ فرمائیں کہ نام نہاد”ویٹو” قوت رکھنے والے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ان کی شہادت پہ ردعمل بھی دے چکے ہیں اور ان کی شہادت کے ممکنہ ردعمل سے خوفزدہ بھی ہیں۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے سردار قاسم سلیمانی پہ امریکی حملے بارے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”اسلام اور مکتبِ خمیتی کے تربیت یافتہ افراد کا ایک ممتاز نمونہ ہیں۔ خدا کے حول و قو کی ساتھ ان کے رحلت کر جانے سے انکا کام نہیں رکے گا اور نہ ہی انکا رستہ مسدود ہوگا بلکہ گذشتہ رات کے حادثے میں شہید ہو جانے والے شہدا کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے مجرموں سے شدید انتقام لیا جائے گا۔ ” اسی طرح ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایرانی وزارت خارجہ امریکی حکومت سے جواب طلب کرے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ اپنی تمامتر سیاسی، قانونی اور بین الاقوامی حیثیت کیساتھ دہشتگرد امریکی حکومت کو اس عظیم جرم کے ارتکاب پر سلامتی کونسل کے فیصلوں کے ذریعے جوابدہ بنائیگی۔
تجزیہ کار سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کو تیسری عالمی جنگ کی ابتدا بھی قرار دے رہے ہیں اور اسرائیل کے وجود کوبھی شدید خطرے میں دیکھ رہے ہیں۔ امریکی حکومت کے خیال میں ان کے باشندوں کی زندگیوں کو صرف عراق میں خطرہ ہے حالانکہ دنیا بھر کے ممالک میں موجود امریکی اور اسرائیلی باشندوں کی زندگیوں کو امریکی صدر نے شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ شہید سردار قاسم سلیمانی کے قتل کا ردعمل شدید بھی ہو گا اور غیر متوقع بھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی جدائی کے دکھ کا تو کسی صورت مداوا ممکن نہیں لیکن جس طرح ان کی حیات، ان کی شہادت عالم اسلام کیلئے لیے باعث فخر ہے، اسی طرح ان کے قتل کا ردعمل بھی باعث فخر ہوگا۔ ان کے پائے کی شخصیت تو دشمن کی صفوں میں ہونے سے رہی۔ میر دبیرکے مرثیے کا ایک شعر ہے کہ
شاہ نے کہا عابد سے،بدلا نہ لینا شمر سے
عدو کا سر میرے سر کے برابر ہو نہیں سکتا