جامعہ امام صادق علیہ السلام کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی نے جامعہ امام صادق کے مسجد میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کے ہدف اور مقصد مسلمانوں کو جہالت، گمراہی اور سرگردانی سے نجات دینا تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بصرہ والوں کو خط میں واضح لکھا کہ میں تمہیں اﷲ کی کتاب اور سنت نبی کی طرف دعوت دیتا ہو اگر میرا ساتھ دو تو میں تمہیں ہدایت دُوں گا اور صحیح راستہ کی نشاندہی تمہارے واسطے کر دُوںگا۔ دشمنان اسلام بالخصوص وہ منافقین جنہوں نے اپنے لئے مسلمان کا عنوان چسپاں کر رکھا تھا اور یزید ان کی قیادت کر رہا تھا وہ سب یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ یہ بات حضرت کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ”میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) و اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سیرت پر چلنا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے۔
واقعہ کربلا نے مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کامکھوٹا پہنے فریب کار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ کربلاءمنافقوں کی شناخت کا وسیلہ ہے۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی احکام کی پابندی و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔ امام علیہ السلام نے خود فرمایا کہ لوگ دینا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔
آج مسلم امہ مجموعی طور جس غیر معمولی تباہی اور تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور اسلام سے ہماری اجتماعی دوری اور فرقت ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین ؑ کو فراموش کرنا ہے ۔ ہم روایات و فروعات میں گم ہو چکے ہیں اور مثبت فکر ہماری معاشرت سے رخصت ہو چکی ہے ۔ آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے دور ظلمت اور گمراہی سے گذر رہی ہے ، اس نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکر حسین اور شہدائے کر بلا کی ایمانی حلاوت اور جذبۂ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور حسینی مشن کی من وعن پیروی میں مضمرہے۔