کوئٹہ(جامعہ):کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے اور آج کربلا میں دو کڑور سے زائد زائرین موجود ہیں اورچہلم کیلئے میلنوں افراد کی پیادہ روی اور کڑوروں زائر کے آمد نوید دے رہے کہ مشن حسینی پایہ تکمیل پہنچ رہے ہے یہ بات جامعہ امام صادق کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر ہزارہ قبرستان پر عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں مزید کہا کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ ہے۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی کوئی ان کے سامنےکھڑا ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب کو نہ للکار سکے ۔ زینب نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر یزید و ابن زیاد کا دربار ہر جگہ زینب ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔
پہلا چہلم وہ دن ہے کہ جب حسین ابن علی (ع) کے مشہور و معروف زائر جابر ابن عبداللہ انصاری پہلی بار کربلا آئے، اور اپنی گفتگو سے حسین بن علی کی شہادت کی یاد کو زندہ کردیا اور شہدا کی قبروں کی زیارت کی سنت کی بنیاد رکھی۔ اس طرح کا اہم دن چہلم کا دن ہے۔
چہلم کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن، اہل بیت پیغمبر (ص) کی خدا داد حکمت عملی سے امام حسین ع کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئی اور اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر شہدا کے ورثاء اور اقربا نے مختلف واقعات میں، جیسے کہ واقعہ کربلا کی یاد باقی رکھنے کے لیے کمر نہیں کسیں تو آئندہ نسلیں شہادت سے زیادہ فیضیاب نہیں ہو سکیں گی۔ چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت اور اس کی یاد کی دشمن کے پروپیگنڈوں کے طوفانوں کے مقابلے میں حفاظت کریں۔