عید غدیر کا آ غاز پیغمبر (ص) کے زمانے سے شروع ہوا، اور حقیقت میں اس عید کے موٴسس خود پیغمبر اکرم (ص) ہی ہیں ، اس لیے کہ جب غدیر خم میں اپنے آخری حج کے بعد حاجیوں کے اجتماع میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو ایک خاص خیمہ میں بٹھایا اور حاضرین کو جس میں شیخین اور قریش وانصار کے بڑے لوگ موجود تھے ، حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جائیں ، ان کی بیعت کریں اور ان کو خدا کی طرف سے مقام امامت پر فائز ہونے کی مبارک دیں ، اور اسی طرح اپنی بیویوں کو بھی حکم دیا کہ وہ بھی علی کی بیعت کریں اور اسے مبارک باد کہیں۔ اور اس دن کو تما م مسلمانوں کیلئے افضل اور عظیم ترین عید اسلامی قرار دیا ․جیسا کہ فرمایا غدیر کا دن میری امت کے افضل ترین عیدوں میں سے ہے ، یہ وہ دن ہے کہ جب کہ خداوندمتعال نے مجھے حکم دیا کہ اپنے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنی امت کیلئے پرچم ھدایت کے عنوان سے منصوب کروں تا کہ میرے بعد اس کے ذریعے سے رھنمای پائیں اور یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے دین کو کامل کیا اور نعمت کو میری امت پرتمام کیا اور ان کیلئے دین اسلام کو پسند کیا․
علامہ صاحب نے مزید کہا کہ نظری اختلاف کے باوجود شیعہ اور سنی غدیر کے واقعہ اور حضرت علی (ع) کی عظیم شخصیت کے بارے میں ہم خیال اور متفق ہیں اور امت اسلامی کا ہر فرد حضرت علی (ع) کو علم و تقوی اور شجاعت کا سب سے اعلی اور ایسا عظیم پیکر سمجھتے ہیں جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔