ولادت امام جواد (ع) کی مناسبت سےامام جواد (ع) کی نورانی سیرت کا خاکہ

23435353

حضرت امام محمد تقی (ع) دنیا کے تمام فضائل کے حامل تھے ،دنیا کے تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ہونے کے باوجود آپ (ع) کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے ،آپ (ع) سات سال اور کچھ مہینے کی عمر میں درجۂ امامت پر فائز ہوئے ،آپ (ع) نے ایسے علوم و معارف کے دریا بہائے جس سے تمام عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں، تمام زمانوں اور آبادیوں میں آپ (ع) کی ہیبت اور آپ کی عبقری (نفیس اور عمدہ )صفات کے سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی۔

اس عمر میں بھی فقہا اور علماء آپ (ع) سے بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مسا ئل پوچھتے تھے جن کا آپ (ع) ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے ۔ راویوں کا کہنا ہے کہ آپ (ع) سے تین ہزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپ (ع) نے بیان فرمائے ہیں ۔
ظاہری طور پر اس حقیقت کی اس کے علاوہ اور کو ئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی ہے کہ شیعہ اثناعشری مذہب کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ اہل بیت (ع) کو علم ،حکمت ،اور فصل الخطاب عطا کیا ہے اور وہ فضیلت عطا کی ہے جو کسی شخص کونہیں دی ہے ہم ذیل میں مختصر طور پر اس امام (ع) سے متعلق بعض خصوصیات بیان کر رہے ہیں :
آپ (ع) اپنے والد بزرگوار کی زند گی میں
امام (ع) نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ اور آغوش پدری میں پرورش پا ئی اور تکریم و محبت کے سایہ میں پروان چڑھے، امام رضا (ع) آپ (ع) کو آپ (ع) کے نام کے بجائے آپ (ع) کی کنیت ابو جعفر سے پکارتے تھے ، جب مام رضا (ع) خراسان میں تھے تو امام محمد تقی (ع) آپ (ع) کے پاس خطوط لکھا کرتے تھے جو انتہا ئی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ہوتے تھے ۔
امام علی رضا (ع) نے اپنی اولاد کو جو اعلیٰ تربیت دی ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ع) ان کو ہمیشہ نیکی، اچھا ئی اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے جیسا کہ آپ (ع) نے خراسان سے اُن کے نام ایک خط میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر فرمایا :
’’میری جان تم پر فدا ہو مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض غلام نے تمہاری سواری کو باغ کے چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ہیں ،یہ ان کی کنجو سی کی وجہ سے ہے تاکہ کو ئی بھی تمھیں راستہ میں نہ ملنے پائے ،لہٰذا میرا تمہاری گردن پر جو حق ہے اس کی بنا پر میں یہ چا ہتا ہوں کہ تمہاری آمد و رفت صرف بڑے دروازے سے ہونی چا ہئے ،اور جب بھی تم سوار ہو کر نکلو تو تمہارے ساتھ سونے ،چا ندی (درہم و دینار کے سکے )ضرور ہونا چا ہئیں ،تاکہ جو بھی تم سے مانگے اس کو فوراً عطا کردو ،اور تمہارے چچاؤں میں سے جو کو ئی تم سے نیکی کا مطالبہ کرے اس کو پچاس دینار سے کم نہ دینا اور تمھیں زیادہ دینے کا بھی اختیار ہے ،اور اپنی پھوپھیوں کو بھی پچاس دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ دینے کا تمھیں اختیار ہے، خدا تمھیں بہترین توفیق عطا فرمائے لہٰذا انفاق کرتے رہو اور خدا کے سلسلہ میں کسی طرح کے بخل کا خیال مت کرو‘‘۔
کیا آپ (ع) نے اس عظیم الشان تربیت کا اندازہ لگایا ہے جس میں شرافت و کرم بالکل نمایاں و آشکار ہے ؟ امام رضا (ع) نے اپنے فرزند ارجمند کے دل کی گہرا ئیوں میں مکارم اخلاق اور اچھے اخلاق کو بھر دیا ہے تاکہ وہ اپنے جد کی امت کے لئے اسوۂ حسنہ یا نمونۂ عمل بن سکیں ۔
خاندان نبوت کا اعزاز و اکرام
خاندان نبوت و رسالت امام محمد تقی (ع) (جبکہ آپ (ع) بالکل نو عمر ہی تھے )کے ذریعہ عزت و شرافت و بزرگی میں اور چند قدم آگے نظر آتا ہے ،اور کمسنی کے باوجود ان کی امامت و فضا ئل کے معترف ہیں جیسا کہ محمد بن حسن عمارہ سے روایت ہے :
میں مدینہ میں علی بن جعفر کے یہاں تھا اور دو سال سے آپ (ع) کے بھا ئی یعنی امام مو سیٰ کاظم (ع) کے اقوال و احا دیث لکھا کر تا تھا ،جب ابو جعفر محمد بن علی رضا مسجدالنبی ؐمیں داخل ہوئے تو علی بن جعفر نعلین اور ردا ء کے بغیر آپ (ع) کے پاس پہنچے، آپ (ع) کے ہاتھوں کو چوما اور آپ (ع) کی تعظیم و تکریم کی اور امام محمد تقی (ع) نے اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے عرض کیا :’’اے چچا خدا آپ (ع) پر رحم فرمائے، تشریف رکھئے ‘‘۔
علی بن جعفر بڑے ہی ادب اور خضوع سے یہ کہتے ہوئے جھکے :اے میرے سردار !میں آپ (ع) کے کھڑے ہوتے ہوئے کیسے بیٹھ سکتا ہوں ؟
جب امام محمد تقی (ع) واپس چلے گئے تو علی بن جعفر اصحاب کے پاس آئے اصحاب نے اُن سے کہا : آپ (ع) ان کے باپ کے چچا ہیں پھر بھی اُن کی اتنی تعظیم کرتے ہیں!! علی بن جعفر نے جذبۂ ایمانی کے انداز میں ، جواب میں اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جواب دیا ،خاموش رہو کیونکہ جب خدا نے میری اس بزرگی کو امامت کے لئے مناسب نہ سمجھا اور اسی جوان کو امام قرار دیا اور اُ س کو اس کے مناسب مقام پر رکھا تو میں تمہاری بات سے خدا کی پناہ چا ہتا ہوں بلکہ میں تو اُن کا غلام ہوں ۔
یہ حدیث علی بن جعفر کے عمیق ایمان پر دلالت کر تی ہے، آپ (ع) نے اپنے اصحاب پر یہ واضح کر دیا کہ بیشک امامت انسان کی مشیت اور اس کے ارادہ کے تابع نہیں ہو سکتی ،امرامامت اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے یہ ایسا امر ہے جس کو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے جسے چا ہتا ہے عطا کر دیتا ہے چا ہے وہ عمر میں چھوٹا ہو یا بڑا ۔
آپ (ع) کا زہد
امام محمد تقی (ع) اپنی ساری زند گی میں متقی و پرہیز گار و زاہد رہے ،آپ (ع) نے دنیا میں اپنے آباء و اجداد کی طرح زہد اختیار فرمایا ،ان ہی کی طرح زندگی بسر کی ،جنھوں نے دنیا سے بے رغبتی کی اور خدا سے لو لگائی۔
امام محمد تقی (ع) جوان تھے اور مامون اپنے پاس آنے والے حقوق شرعیہ جن کی ما لی حیثیت بہت زیادہ ہو تی تھی سب کے سب آپ (ع) کے پاس بھیج دیتا تھا آپ ان میں سے اپنے مخصوص امور کے علاوہ کچھ بھی خرچ نہیں کرتے تھے، بقیہ سب کا سب فقرا اور محروموں پر خرچ فرمادیتے تھے ،حسین مکاری سے روایت ہے کہ جب امام محمد تقی کی بغداد میں اتنی تعظیم وتکریم دیکھی تو میں نے خود سے کہا کہ اب میں اپنے وطن واپس نہیں پلٹوں گا اور عنقریب بغداد میں مقیم ہو کر نعمتوں سے مستفیض ہوں گا، امام اس کے دل کی بات سے آگا ہ ہوگئے اور اس سے فرمایا :اے حسین! مجھے میرے جد رسول اللہ کے حرم میں جو کی روٹی اور دلاہواموٹا موٹانمک اس سے زیادہ محبوب ہے جس کے بارے میں توسوچ رہا ہے ۔۔۔‘‘۔(۱)
امام ملک اور سلطنت کے خواہاں نہ تھے، آپ بالکل حکومت کی طرف سے کئے جانے والے مظاہر کی کوئی پروا نہیں کرتے آپ نے ہمیشہ زہدا ختیار کیا اور دنیا سے رو گردان رہے ۔
آپ(ع) کی سخاوت
امام ابو جعفر (ع) لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض تھے، اکثر لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے اور آپ (ع) کا فقراکے ساتھ نیکی کرنا مشہور تھا اور آپ کو آپ کے بہت زیادہ کرم اور سخاوت کی وجہ سے جواد کے لقب سے نواز ا گیا ہم ذیل میں آپ کی سخاوت کے کچھ واقعات نقل کررہے ہیں :
۱۔مورخین نے روایت کی ہے کہ احمد بن حدید اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ حج کیلئے نکلے تو ان پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے ان کا سارا مال ومتاع لوٹ لیا، مدینہ پہنچ کر احمد امام محمد تقی کے پاس گئے اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے اُن کیلئے ایک تھیلی لا نے کا حکم دیا اور اُن کو مال عطا کیا تا کہ پور ی جماعت میں تقسیم کردیں اس مال کی مقدار اتنی ہی تھی جتنا مال ان کا لوٹا گیاتھا۔(۲)
۲۔عتبی سے روایت ہے کہ ایک علوی مدینہ میں ایک کنیز خرید نا چا ہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا جس سے اس کو خرید ا جا سکے تو اس نے امام محمد تقی سے اس کی شکایت کی امام نے اس کے مالک سے سوال کیا تو اس نے آپ کو بتایا، امام نے اس کے مالک سے مزرعہ(کھیت) اور کنیز کو خرید لیا ،علوی نے کنیز کے پاس پہنچ کر اس سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ اس کو خرید اجا چکا ہے لیکن نہیں معلوم اس کو مخفی طور پر کس نے خرید اہے علوی نے امام کی طرف متوجہ ہو کر بلند آواز میں عرض کیا ۔فلاں کنیز فروخت کردی گئی ہے ۔
امام (ع) نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا تم کو معلوم ہے اس کو کس نے خرید ا ہے ؟
اس نے جواب دیا :نہیں ۔
امام اس کے ساتھ اس کھیت کی طرف گئے جس میں وہ کنیز تھی اور امام نے اس کو اس میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا تو اس نے اس میں داخل ہونے سے منع کیا چونکہ وہ اس کے مالک کو نہیں پہچانتا تھا، جب امام نے اس سے اصرار کیا کہ تو اس نے قبول کرلیا جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس میں کنیز کو دیکھا امام نے اس سے فرمایا کیا تم اس کو پہچا نتے ہو ؟
اس نے کہا: ہاں ۔
علوی کو معلوم ہو گیا کہ امام (ع) نے اس کو خریدلیا ہے۔
امام نے اس سے فرمایا:یہ کنیز ’قصر‘مزرعہ غلہ اور جو کچھ اس قصر میں مال ودولت ہے سب تیرے لئے ہے، علوی خوش ہو گیا اور اس نے امام کا بڑی گر مجو شی سے شکریہ اداکیا ۔(۳)
یہ امام (ع) کی سخاوت و کرم کے بعض واقعات تھے ۔
آپ (ع) کے وسیع علوم
امام محمد تقی (ع) بچپن میں ہی اپنے زمانہ کے تمام علماء میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے ،بڑے بڑے علماء آپ (ع) کے مناظروں ،فلسفی ،کلامی اور فقہی بحثوں سے متأثر ہوکر آپ (ع) کی عظمت کا لوہا مانتے تھے ،اور منتصر کے پاس جاکر آپ (ع) کے فضل و بر تری کا اقرار کرنے تھے ،فقہا اور علماء سات سال کی عمر میں ہی آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور آپ (ع) کے علوم سے مستفیض ہوتے تھے یہاں تک کہ آپ (ع) کی فضیلت شائع ہو گئی ،مختلف بزموں اور نشستوں میں آپ (ع) کا چر چا ہونے لگا ،اپنے کمال و فضل کی بنا پر آپ (ع) دنیا والوں کے لئے حیرت وتعجب کاسبب قرار پائے ،جب مامون نے اپنی بیٹی کا امام سے عقد کرنے کا ارادہ کیا تو اُ س نے عباسیوں کو بلایاتو اُنھوں نے مامون سے امام کے امتحان کا مطالبہ کیا تو مامون نے قبول کر لیا ۔
اس نے امام کے امتحان کے لئے بغداد کے قاضی القضات یحییٰ بن اکثم کو معین کیااور یہ وعدہ کیا کہ اگروہ امام کوان کے امتحان میں ناکام کردے اور وہ جواب نہ دے سکیں تو اس کو بہت زیادہ مال و دولت دیا جا ئے گا،یحییٰ اس مجلس میں پہنچا جس میں وزراء اور حکّام موجود تھے سب کی نظریں امام (ع) پر لگی ہو ئی تھیں چنانچہ اس نے امام (ع) سے عرض کیا :کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ (ع) سے کچھ دریافت کروں ؟
امام (ع) نے مسکراتے ہوئے فرمایا :’’اے یحییٰ !جو تم چاہو پوچھو !‘‘
یحییٰ نے امام (ع) سے کہا :آپ (ع) فرمائیے حالت احرام میں شکار کرنے والے شخص کا کیا حکم ہے ؟
امام (ع) نے اس مسئلہ کی تحلیل کرتے ہوئے اس طرح اس کی مختلف صورتیں بیان کیں اور یحییٰ سے سوال کیا کہ تم نے ان شقوں میں سے کو نسی شق پوچھی ہے ؟
آپ (ع) نے فرمایا :’’ اُس نے حدود حرم سے باہر شکارکیا تھا یا حرم میں ،شکار کرنے والا مسئلہ سے آگاہ تھا یا نہیں ،اس نے عمدا شکار کیا ہے یا غلطی سے ایسا ہو گیا ہے ،شکار کرنے والا آزاد تھا یا غلام ،وہ بالغ تھا یا نا بالغ ،اُس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا بار بار شکار کر چکا تھا ،شکار پرندہ تھا یا کو ئی اور جانور تھا ، شکار چھوٹا تھا یا بڑا ، شکار ی شکار کرنے پر نا دم تھا یامُصر ،شکار رات کے وقت کیا گیا ہے یا دن میں اور اس نے حج کیلئے احرام باندھا تھا یا عمرہ کیلئے ؟‘‘۔
یحییٰ کے ہوش اڑ گئے وہ عاجز ہو گیا چونکہ اُس نے اپنے ذہن میں اتنی شقیں سو چی بھی نہیں تھیں ، مجمع میں تکبیر و تہلیل کی آوازیں بلند ہو نے لگیں ، اور سب پر یہ آشکار ہو گیا کہ اللہ نے اہل بیت (ع) کو علم و حکمت اسی طرح عطا کیا ہے جس طرح اُس نے انبیاء اور رسول کو عطا کیا ہے ۔
امام محمد تقی (ع) نے اس مسئلہ کی متعدد شقیں بیان فرما ئیں جبکہ ان میں سے بعض شقوں کا حکم ایک تھا جیسے شکار رات میں کیا جائے یا دن میں ان دونوں کا حکم ایک ہے لیکن امام (ع) نے اس کی دشمنی کو ظاہر کرنے اور اسے عاجز کرنے کے لئے ایسا کیا تھا چونکہ وہ آپ (ع) کا امتحان لینے کی غرض سے آیا تھا ۔
مامون نے اپنے خاندان والوں کی طرف متوجہ ہو کران سے کہا :ہم اس نعمت پر خدا کے شکر گذار ہیں، جو کچھ میں نے سوچا تھا وہی ہوا ،کیا تمھیں اُن کی معرفت ہو گئی جن کا تم انکار کر رہے تھے ؟ ۔(۴)
جب عباسی خاندان پر اس چھوٹے سے سِن میں امام محمد تقی (ع) کا فضل و شرف اور اُن کا وسیع علم آشکار ہو گیا تو مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کا آپ (ع) سے عقد کر دیا ۔
حقیقی ایمان
اللہ پرایمان اس پر بھروسے اور توکل پر دلالت کر تا ہے ہم اُن میں سے ذیل میں چند نصیحتیں بیان کر رہے ہیں :
۱ ۔ اللہ پر اعتماد
امام محمد تقی (ع) کا فرمان ہے :جوشخص خدا پر بھروسہ کر تا ہے خدا اس کو خو شی دکھلاتا ہے، جوشحص خدا پر توکل کرتا ہے خدا اس کو مصیبتوں سے بچاتا ہے خدا پر بھروسہ ایسا قلعہ ہے جس میں مو من ہی جا سکتا ہے خدا پر توکل کرنا برائی سے بچانے کا ذریعہ اور ہر دشمن سے حفاظت کا وسیلہ ہے ۔(۵)
اِن سنہرے کلمات میں جس چیز کی تمام انسانوں کو اپنی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے وہ خالق کائنات اور زندگی دینے والے پر بھروسہ کرنا ہے جس نے اللہ پر بھروسہ کیا وہ خو شی دیکھے گا اور اللہ پر بھروسہ کرنا انسان کے امور کے لئے کافی ہے ۔
۲۔اللہ کے ذریعہ بے نیازی
امام محمد تقی (ع) نے اللہ کے ذریعہ بے نیازی اور اسی سے امید باندھنے کی دعا فر ما ئی :جوشخص خدا کے ذریعہ بے نیاز ہوگا لوگ اسی کے محتاج ہوں گے ،اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا لوگ اس سے محبت کر یں گے ‘‘۔(۶)
۳۔اللہ سے لو لگانا
امام محمد تقی (ع) نے اللہ سے لو لگانے کی ترغیب دلا ئی چونکہ خدا کا فیض اور لطف و کرم کبھی ختم نہیں ہوتا: ’’لیکن جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور سے لَو لگا ئی خدا اس شخص پر لو لگانے والے کو غالب کردیتا ہے ‘‘۔(۷)
مکارم اخلاق
امام محمد تقی (ع) نے مکارم اخلاق اور محاسن صفات پر مشتمل دعا میں فرمایا ہے :’’انسان کے بہترین اخلاق کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ کسی کو اذیت نہیں پہنچاتا ،اس کے کرم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے محب کے ساتھ اچھا برتاؤ کر تا ہے ،اس کے صبر کا نمونہ یہ ہے کہ وہ شکایت نہیں کرتا ،اس کی خیر خوا ہی کی پہچان یہ ہے کہ وہ ناپسند باتوں سے روکتا ہے ،نرمی کی پہچان یہ ہے کہ انسان اپنے دینی بھا ئی کی ایسے مجمع میں سر زنش نہ کرے جہاں اُس کو بُرا لگتا ہے ،اس کی سچی صحبت کی پہچان یہ ہے کہ وہ کسی پر بار نہیں بنتا ،اس کی محبوبیت کی پہچان یہ ہے کہ اس کے موافق زیادہ اور مخالف کم ہوتے ہیں ‘‘۔(۸)
امام محمد تقی (ع) نے ان بہترین کلمات کے ذریعہ حسن اخلاق اور مکارم اخلاق،سچائی قائم کرنے اور حقیقی فکر و محبت کرنے کی بنیاد ڈالی ۔
آداب سلوک
امام محمد تقی (ع) نے لوگوں کے درمیان حسن سلوک اور اس کے آداب کا ایک بہت ہی بہترین نظام معین فرمایا ۔آپ (ع) اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں :
۱۔’’تین عادتوں سے دل موہ لئے جاتے ہیں :معاشرے میں انصاف ،مصیبت میں ہمدردی ، پریشا ن حالی میں تسلّی‘‘ ۔(۹)
۲۔’’جس شخص میں تین باتیں ہو ں گی وہ شرمندہ نہیں ہوگا :جلد بازی سے کام نہ لینا ،مشورہ کرنا ، عزم کے وقت اللہ پر بھروسہ کرنا ،جوشخص اپنے بھا ئی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرے وہ اس کا محسن ہے اور جو علانیہ طور پر اس کو نصیحت کر ے گویا اُس نے اس کے ساتھ برا ئی کی ہے ‘‘۔(۱۰)
۳۔’’مومن کے اعمال نامہ کی ابتدا میں اس کا حسن اخلاق تحریر ہو گا ،سعادتمند کے اعمال نامہ کے شروع میں اس کی مدح و ثنا تحریر ہو گی ،روایت کی زینت شکر ،علم کی زینت انکساری ،عقل کی زینت حسن ادب ہے ، خوبصورتی کا پتہ کلام کے ذریعہ چلتا ہے اور کمال کا پتہ عقل کے ذریعہ چلتا ہے ‘‘۔(۱۱)
امام کے یہ کلمات حکمت ،قواعد اخلاق اور آداب کے اصول پر مشتمل ہیں ،اگر کسی شخص کے پاس صرف یہی کلمات ہوں تو آپ (ع) کی امامت پر استدلال کرنے کیلئے کافی ہیں ، ایک کمسن اپنی عمرکے ابتدائی دور میں کیسے ایسی دا ئمی حکمتیں بیان کرنے پر قادر ہو گیا جن کا بڑے بڑے علماء مثل لانے سے عاجز ہیں ؟
آپ (ع) کے مو عظے
ہم ذیل میں آپ (ع) کے بعض مو عظے بیان کر رہے ہیں :
۱۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام فر ماتے ہیں :’’توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ ہے ،اور توبہ کرنے میں بہت زیادہ دیرکرنا حیرت و سرگردانی کا سبب ہے ،خدا سے ٹال مٹول کرنا ہلاکت ہے اور بار بار گناہ کرنا تدبیر خدا سے ایمن ہونا ہے ،خداوند عالم کا فرمان ہے :(لا یَأْمَنُ مَکْرَ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ)(۱۲) ‘‘۔(۱۳)
’’مکر خدا سے صرف گھاٹا اٹھانے والے ہی بے خوف ہوتے ہیں ‘‘
۲۔ایک شخص نے آپ (ع) سے عرض کیا :مجھے کچھ نصیحت فرما دیجئے تو آپ (ع) نے اس کو یہ بیش بہا نصیحت فرمائی :’’صبر کو تکیہ بناؤ ،غریبی کو گلے لگاؤ ،خواہشات کو چھوڑ دو ،ہویٰ و ہوس کی مخالفت کرو ،یاد رکھو تم خدا کی نگاہ سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا غور کرو کس طرح زند گی بسر کرنا ہے ‘‘۔(۱۴)
۳۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے بعض اولیا کو وعظ و نصیحت پر مشتمل یہ گرانبہا خط تحریر فرمایا : ’’ہم اس دنیا سے چلو بھر پانی لیتے ہیں لیکن جس شخص کی خواہش اپنے دوست کی طرح ہو اور وہ اس کی روش کے مطابق چلتا ہو تو وہ ہر جگہ اس کے ساتھ ہوگا جبکہ آخرت چین و سکون کا گھر ہے ‘‘۔(۱۵)
آپ (ع) کے یہ وہ موعظے اور ارشادات ہیں جو انسان کو اس کے رب سے نزدیک کرتے ہیں اور اس کے عذاب و عقاب سے دور کرتے ہیں ،انسان کے نفس میں اُبھرنے والے برے صفات کا اتباع کر نے سے ڈراتے ہیں ،یہ برے صفات انسان کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں ،انسان کو رذائل اور جرائم کے میدانوں میں گامزن کر دیتے ہیں ،امام محمد تقی (ع) نے اپنے وعظ و ارشادات میں اپنے آباء و اجداد کا اتباع فرمایا ہے ،یہ وہ تابناک نصائح ہیں جن کا ہم اُن کی سیرت و سوانح حیات میں مطالعہ کرتے ہیں ۔
مامون کا امام (ع) سے مسئلہ کی وضاحت طلب کرنا
مامون نے امام محمد تقی (ع) سے اس مسئلہ کی وضاحت طلب کی جو آپ (ع) نے یحییٰ بن اکثم سے پوچھا تھا ، تو آپ (ع) نے یوں وضاحت فرما ئی :
’’اگر حالتِ احرام میں حدود حرم سے باہر شکا رکیا ہے اور شکار پرندہ ہے اور بڑا بھی ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے ،اگر یہی شکار حدود حرم کے اندر ہوا ہے تو کفارہ دُوگنا (یعنی دو بکریاں )، اگر پرندہ چھوٹا تھا تو دنبہ کا وہ بچہ جو ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ،اگر یہ شکار حرم میں ہوا ہے تو اُس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ ،اگر شکار وحشی گدھا ہے تو کفارہ ایک گائے اوراگر شکار شتر مُر غ ہے تو کفارہ ایک اونٹ ہے اگرشکاری کفارہ دینے پر قادر نہیں ہے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس پر بھی قادر نہیں ہے اٹھارہ دن روزے رکھے ، اگر اس نے گائے کا شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ بھی ایک گا ئے ہے اگر اس کفارہ کو دینے پر قادر نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو نو دن کے ر وزے رکھے ،اگر شکار ہر ن ہے تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اگر وہ اس کفارہ کو دینے پر قادر نہ ہو تو دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اگر یہ بھی نہ دے سکے تو تین دن کے روزے رکھے ،یہ شکار اگر حدود حرم میں ہوا ہے تو کفارہ دوگُنا ہوگا :(ھدْیاًبالغ الکعبۃِ)اگر احرام حج کا ہے تو قربانی منیٰ میں کرے گا جس طرح دوسرے حا جی کرتے ہیں اور اگر احرام عمرہ کا ہے تو کفارات کو خانۂ کعبہ تک پہنچانا ہوگا اور قربانی مکہ میں ہو گی ،اور بکری کی قیمت کے مانند صدقہ دینا ہوگا ۔
اگر اس نے حرم کے کسی کبوتر کا شکار کیا ہے تو وہ ایک درہم صدقہ دے گا اور ایک درہم سے حرم کے کبوتروں کے لئے چارا خریدے گا ،بچہ کا شکار کرے تو آدھا درہم صدقہ دے گا اور اگر بیضہ توڑدے تو ایک چوتھا ئی درہم صدقہ دے گا ،محرم کو ہر حال میں کفارہ ادا کرنا ہوگا چاہے وہ جان بوجھ کر شکار کرے یا بھول کر شکار کرے ،چاہے وہ اس مسئلہ سے واقف ہو یا ناواقف ،غلام کا کفارہ مالک کو ادا کرنا ہوگا چونکہ غلام خود بھی مالک کی ایک ملکیت ہی شمار ہوتا ہے ،اگر حالت احرام میں شکار کا پیچھا کرے اور شکار مرجائے تو اس کو فدیہ دینا ہوگا ،اگر اپنے اس فعل پر اصرار کرے گا تو اُس پر آخرت میں بھی عذاب ہوگا اور اگر اپنے اس فعل پر پشیمان و شرمندہ ہوگا تو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جا ئے گا ،اگر وہ رات میں غلطی سے اس کا گھونسلا خراب کردے تو اُس کو کچھ نہیں دینا ہوگا جب تک کہ وہ شکار نہ کرے ،اگر وہ رات یا دن میں اس کا شکار کرلے تو فدیہ دینا ہوگا ،اوراگر احرام حج کا ہے تو فدیہ کو مکہ پہنچانا ہوگا ۔۔۔‘‘۔
مامون نے اس مسئلہ کو لکھنے کا حکم دیا اس کے بعد عباسیوں سے مخاطب ہو کر یوں گو یا ہوا :کیا تم میں کو ئی اس مسئلہ کا جواب دے سکتا ہے ؟
نہیں ،خدا کی قسم قاضی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا ۔
اے امیر المو منین! آپ بہترجانتے ہیں ۔۔۔
آگاہ ہوجاؤ کیا تم نہیں جانتے کہ اہل بیت (ع) عام مخلوق نہیں ہیں ؟رسول ؐ اللہ نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی بچپن میں ہی بیعت کی ہے اور ان دونوں بچوں کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہیں کی ہے، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ حضرت علی (ع) نو سال کے سن میں رسول اللہ پر ایمان لائے ،اور اللہ و رسول ؐ نے ان کا ایمان قبول کیا اور ان کے علاوہ کسی اور بچہ کا ایمان قبول نہیں کیا ؟ نہ ہی رسول ؐ اللہ نے آپ (ع) کے علاوہ کسی اور بچہ کو دعوت دی ،اور کیا تمھیں نہیں معلوم کہ اس ذریت میں جو حکم پہلے پر نافذ ہوگا وہی حکم آخری پر نافذ ہو گا ۔(۱۶)
مامون ایمان لے آیاکہ ائمہ اہل بیت (ع) کا اسلام میں بہت ہی بلند وبالا مقام ہے اور اُن کے چھوٹے بڑے فضیلت میں برابر ہیں ۔
یہ بات بھی شایانِ ذکر ہے کہ جب امام محمد تقی (ع) بغداد میں تھے تو علماء اور راوی آپ کے مختلف علوم فقہ، کلام ،فلسفہ ، قرآن کریم کی تفسیر اور علم اصو ل وغیرہ پر مشتمل دوروس تحریر کیا کر تے تھے ۔(۱۷)
امام محمد تقی علیہ السلام کے پایۂ علمی ،مناظرہ اور دیگر علمی اور فکری کارنامے آپ (ع) کی نوجوانی کے ہیں شیعو ں کا اس بات پر مطلق ایمان ہے کہ ائمہ اہل بیت (ع) کو اللہ نے علم و حکمت اور فصل خطاب عطا کیا ہے اور ان کو وہ فضیلت عطاکی ہے جو دنیا میں کسی کو بھی نہیں عطا کی ہے ۔۔۔
حوالہ جات
۱۔حیاۃالامام محمد تقی (ع) ،صفحہ ۷۵۔
۲۔وافی بالوفیات ،جلد ۴،صفحہ ۱۰۵۔
۳۔مرآۃ الزمان، جلد ۶صفحہ ۱۰۵ ۔
۴۔الارشاد، صفحہ ۲۶۱۔وسائل ،جلد ۹،صفحہ ۱۸۷،وغیرہ ۔
۵۔فصول مہمہ ابن صباغ، صفحہ ۳۷۳۔
۶۔جوہرۃ الکلام، صفحہ ۲۵۰۔
۷۔حیاۃ الامام محمد تقی (ع) ، صفحہ ۱۰۵۔
۸۔در تنظیم صفحہ ۲۲۳۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ۷۷۔
۹۔جوہرۃ الکلام ،صفحہ ۱۵۰۔
۱۰۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ۷۸۔
۱۱۔ایضاً
۱۲۔سورۂ اعراف، آیت ۹۹۔
۱۳۔تحف العقول ،صفحہ ۴۵۶۔
۱۴۔تحف العقول ،صفحہ ۴۵۶۔
۱۵۔تحف العقول ،صفحہ ۴۵۶۔
۱۶۔تحف العقول ،صفحہ ۴۵۲۔وسائل الشیعہ ،جلد ۹ صفحہ ۱۸۸۔یہ مکالمہ ارشاد، صفحہ ۳۱۲میں مختصر طور پر نقل ہوا ہے ۔
۱۷۔ اس سلسلہ میں رجوع کیجئے: عقیدۃ الشیعہ ،صفحہ ۲۰۰،حیاۃالامام محمد تقی (ع) ، صفحہ ۲۵۷۔

التماس دعا – حاجی علی رامیز

 



دیدگاهها بسته شده است.