حوزه علمیه جامعه امام صادق(ع) کویته – تحریر: سیدہ سائرہ –
ارشاد رب تعالیٰ ہے : ’’خدا تو سارے آسمان اور زمین کانورہے ۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں (علم و شریعت) کا ایک چراغ روشن ہو اور وہ چراغ شیشے کی ایک قندیل میں ہو ، اپنی چمک دمک میں گویا روشن ستارہ ہو ، وہ چراغ زیتون کے با بر کت درخت کے تیل سے روشن کیا جائے جو شر قی ہو نہ غر بی بلکہ ہر جگہ اس کانور ہو ۔ اُس کا تیل اتنا صا ف اور شفاف ہو کہ آگ سے نزدیک ہوئے بغیر خود ہی روشن ہو جائے ۔نور با لائے نور(یعنی روشنی پر روشنی ) خدا جسے چا ہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدا یت کر تا ہے ،خدا لوگوں کے لیے مثا لیں بیان کر تا ہے ۔ اور خدا تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔”
اللہ تعالیٰ نے سورئہ نور کی ٣٥ویں آیت میں خود کو ایک مثال کے ذر یعے بیان کیا ہے ۔حضرت امام جعفر صادق کی ایک روایت کے مطا بق یہاں طا ق سے مراد حضرت فا طمہ ،چراغ سے مراد حضرت حسین اور قندیل سے مراد حضرت حسین علیہم السلام ہیں ۔اس روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے عیب اور مکمل ذات کو ایسی ہسیتوں کے ذریعے بیان کیا ہے جو مکمل ہیں ،ان میں کوئی کمی یا کجی نہیں پائی جاتی ۔یہ ہستیاں انسانی شکل میں خدا کی مکمل تصویر پیش کر تی ہیں ۔ایک اور روایت میں ہے کہ نحن وجہ اللہ” ہم خدا کے چہرے ہیں” یعنی اگر خدا کو تصور کر نا ہے تو ان ہستیوں کے کر دارو عمل کوبطورِ نمو نہ دیکھنا چاہیے۔اس روایت کے مفہوم کو منتخب شدہ مو ضو ع یعنی جناب فا طمہ زھرا (س)بحیثیت آئیڈیل شخصیت سے مربوط کر تے ہوئے لفظ ideal کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔لفظ ideal کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں ؟یہ لفظ idea سے لیا گیا ہے اور اس کے ایک سے زائد معانی ہیں ۔ یہاں ideal سے مراد ہے : a person regarded as perfect یعنی وہ شخص جسے مکمل سمجھا جائے ۔
بلا شبہ حضرت فا طمہ زھرا ایک آئیڈیل شخصیت ہیں۔ اور ان کا کردار قا بل تقلید ہے ۔ یہاں آئیڈیل سے مراد عورتوں کی آئیڈ یل نہیں ہے ۔آئیڈیل تو آئیڈیل ہو تا ہے ۔ اس کی کوئی تخصیص نہیں ہو سکتی ،با لکل اسی طرح کہ جیسے نبی آخر ۖہر انسان کے آئیڈیل ہیں ۔ اگر چہ وہ مرد تھے لیکن اُن کی شخصیت و کر دارہر فرد کے لیے نمو نہ ہے ۔ پس دونوں باپ بیٹی زما نہ جاہلیت سے لے کر آ ج تک اور آنے والے کل کے ہر انسان کے آئیڈیل ہیں ۔ یہاں یہ بات قا بل غور ہے کہ ان دونوں ہستیوں کے خود کو بحیثیت آئیڈیل منوانے کے طریقے یکساں تھے ،دور بھی یکساں تھا لیکن صنف کے تضادنے فا طمہ کے لیے کا فی مشکلات پیدا کیں۔فا طمہ زہرا کے والد بزرگوار یعنی محمدۖ مصطفیٰ نے اپنے مثالی کردارسے عرب کے جاہل معاشرے میں خود کو ideal ثا بت کیا ۔ہر بچہ ، جو ان ،مرد و زن سب آپ ۖ کی شخصیت کے گر ویدہ ہو گئے ۔آپ کا وجود ان لوگوں کے لیے اسلیے بھی قا بل قبول بنا کہ وہ معاشرہ مر دوں کا معا شرہ تھا ۔عورت کے حوالے سے انھوں نے غیر انسانی فکر و رسو مات کو اپنا رکھا تھا ۔عورت کا ذکر بازاری زبان میں کیا جا تا تھا ،اُس کی حر مت محفوظ نہیں تھی ،بیٹی کی پیدائش ذلت ور سوائی کا سبب تھی اور جس شخص کی اولاد نر ینہ نہیں ہوتی تھی وہ ابتر کہلا تا تھا ۔جب فا طمہ کی پیدائش ہو ئی تو نبی ۖ کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کر نا پڑا ۔لیکن خدا کے نزدیک اس طعنہ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور اُس نے نبیۖ کو اعزاز سے نوازا۔ فر مایا :۔
اے محمدۖ!ہم نے ایک چشمہ کثیر (فا طمہ)آپ کو عطا کیا (١)
جب ایسا ہے تو اپنے پرور دگار کے لیے نماز پڑھئے اور تکبیر کے وقت ہا تھوں کو بلند کیجئے (٢)
یقینا آ پۖ کا دشمن مقطوع النسل ہے (٣)
یہ ایک نا قا بل تر دید حقیقت ہے کہ جب کبھی کسی شخصیت کو idealise کیا جاتا ہے تو اُس کے پس منظر میں چھپے ہو ئے ان لوگوں اور ما حول کی جستجو ہوتی ہے جنکے ذریعے وہ آئیڈیل کئی جہتیں لیے سامنے آتا ہے ۔ یعنی آئیڈیل ما حول اور تر بیت کا انداز ہمارے لیے inspiration سے کم نہیں ہو سکتا پس
فا طمہ کا ما حول ان کے والدین نے بنا یا اور تر بیت بھی انہی کے ہا تھوں ہو ئی گو یا آپۖ کی تر بیت اس گھرانے میں ہوئی جس کی چو کھٹ پر فخر ملا ئکہ حضرت جبرئیل سجدہ ریز ہیں ۔ آپ اُس مجسم اخلاق کی بیٹی ہیں جسکے خلق کی گواہی اللہ نے قرآن میں دی ۔آپ ۖوہ خا تون ہیں جس پر خدیجہ کو ناز ہے احکامات الہیٰ آپ کے سامنے نا زل ہوتے اور پھر ان احکامات پر اپنے ماں باپ کو عمل پیرا ہوئے ہوئے بھی دیکھا – جب زمین زرخیز اور ہموار ہو اورشدو نمو کا بہترین سامان موجود ہو تو با غبان کو کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ بقول سعدی:
با ران کہ در لطا فت طبعش خلاف نیست
در باغ لا لہ روید و در شو رہ زار خس
یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ بارش اپنی ذات کے اعتبار سے رحمت اور لطف خدا ہے مگر یہی بارش باغ میں گل لالہ اگاتی ہے اور سیم و تھوروالی زمین میں تنکے !! پس فا طمہ بھی لطف خدا اور با غبان کی محنت سے ایک مثا لی شخصیت بن کر اُبھریں۔
عام طور پر کسی بچے کی تر بیت میں ماں کے کر دار کو اہم تصور کیا جا تا ہے لیکن شو مئی قسمت کہ فا طمہ زھرا شفقت ما دری سے بہت جلد محروم ہو گئیں ۔یہ محرومی نبی ۖکے حصے میں بھی آئی کہ وہ ایک بہترین شریک حیات سے محروم ہوگئے ۔مگر خدا و ند عا لم کی سنت ہے کہ جب وہ کسی بندے سے کوئی نعمت سلب کر لیتا ہے تو اُس کی جگہ اسے دوسری نعمت عطا کر تا ہے ۔خدیجہ کی کمی کو فاطمہ جیسی عظیم نعمت نے پورا کردیا ۔ اس مقام پر ایک آئیڈیل کے حوالے سے بی بی سیدہ کے
کر ادر کی درجہ بندی کر نا ضروری ہے ۔ یعنی آپ نے عورت کی حیثیت سے بیٹی ،بیوی اور ماں کے کر دار کو بطریق احسن نبھا یا ۔جناب خدیجتہ الکبری کی یاد گار جنا ب فا طمہ زھرا (س)مہربان ، وفا دار، جان نثار، دلیر، ایثار کر نے والی بیٹی جو ہمیشہ اپنے باپ کو سکون پہنچاتی رہی اور ان کے چہرہ اقدس کو رنج و غم سے پاک کر تی رہی ۔ حضرت فا طمہ سیدہ کا بچپن مکہ کے انتہائی سنگلاخ و پر خطر حالا ت میں گزرا ۔ آپ کے والد بزر گوار دین حق کی تبلیغ میں مصروف تھے اور دشمن کی اذیت ناک تکلیفوں کا سا منا کر رہے تھے ۔ اس وقت بھی فا طمہ نے اُن کی دلجوئی کی اورحتی المقدور ساتھ دیا ۔ ہجرت مدینہ کے بعد فا طمہ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا ۔ چونکہ وہ خود ایک ideal شخصیت کی مالک تھیں اور ایک آئیڈیل انسان کی بیٹی تھیں لہٰذا آپ کے پدر بزرگو ارنے آپ کا عقد بھی کا ئنات کے افضل ترین انسان سے کر دیا ۔ یہ وہ ہستی ہے کہ جسکے بارے میں نبی ۖنے فرما یا:
” اگر حضرت علی پیدا نہ ہو تے تو حضرت فا طمہ کا کوئی ہم سر نہ ہو تا ” ۔
شو ہر کے گھر میں حضرت زہرا کی زندگی نمونہ تھی ۔ان کے والد ، شوہر اور فر زند نمو نہ تھے ۔ بظا ہر یہ ہستیاں دوسرے انسانوں کی طرح چلتی پھر تی ، کھا تی پیتی اورزندگی بسرکر تی تھیں لیکن ان کی سر شت فر شتوں سے بھی افضل تھی ۔ایسی سر شت جو خدا سے پیو ستہ تھی ۔ یہ ایسے انسان تھے جو دوسروں کے دکھ اور تکلیف کا مدارو اکر نے کی کو شش کر تے ۔ خود تکلیف اٹھا تے تاکہ دوسروں کو آرام ملے ۔ایسے افراد اطبائے الہیٰ اور ذات حق کے شا گر د ہیں اور اس شعر کے کا مل مصداق ہیں:
کل یرید رجا لہ لحیاتہ یا من یر ید حیا تہ لر جا لہ
وہ روح کی عظمت اور بر تری سمجھتے ہیں نہ کہ جسم پا لنے اور جسمانی ضرورت کو پورا کر نے میں۔اگر وہ جسم کے ساتھ زندہ اور مو جود ہیں تو اسلیے تاکہ دوسروں کو اچھی زندگی کادرس دیں۔
جناب سیدہ (س) ایسے ہی مدر سے کی تعلیم یا فتہ تھیں ۔اس مثا لی خا تون کی ازدواجی زندگی بھی مثا لی ہے ۔ کہنے کو تو یہ بی بی مادی حوا لے سے جہیز میں محض ایک چٹائی ،چکی ،چمڑے کی مشک اور جوڑا کپڑوں کا لے کر آئیں مگر معنوی لحا ظ سے وہ عظیم ترین عالم کے دیئے ہوئے علم و اخلاق کے زیور سے آراستہ تھیں ۔پھر جس شخص کے نام کی چا در انھوں نے اوڑھ رکھی تھی وہ کا ئنات کل کا مولا تھا مگر تمام عمر اس سے کوئی فر مائش نہیں کی اور ہمیشہ خد مت کرنے کے بعد بھی وقت آخر معذرت طلب کی کہ اگر مجھ سے کوئی کو تاہی ہو گئی ہو تو معا ف فر ما دیجئے ۔
اس مقام پر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فا طمہ نے ایک آئیڈیل بیوی کا کر دار ادا کرتے ہوئے اپنے والد کی تر بیت کو قطعا ًفراموش نہیں کیا جیسے ایک مر تبہ حسنین دو یا تین دن کے فا قے سے تھے لیکن سیدہ نے علی کو نہیں بتا یا ۔ جب علی آگاہ ہو ئے تو فر ما یا کہ مجھے کیوں نہیں بتا یا کہ بچے بھو کے ہیں؟سیدہ نے جواب میں فر مایا :” میرے با با نے فر مایا ہے ۔ علی سے کوئی چیز طلب نہ کر مگر یہ کہ وہ خود آپ کے لیے مہیا کر یں ۔”
اس وا قعہ میں فا طمہ بطورآئیڈ یل ماں بھی ہمارے سامنے آتی ہیں ۔آپ نے اپنے بچوں کو جو کچھ تر بیت دی ، آنے والے وقت نے ثا بت کر دیاکہ آپ ایک مثا لی ماں ہیں بچپن ہی سے فکر وفا قہ میں زندگی بسر کر نے والی خا تون نے اپنے بچوں کوظا ہر ی نمودو نمائش اورلہوولعب سے دو رکھا ۔خا تون ِ جنت نے اولاد کی تر بیت کا فرض کس خو بی کے ساتھ ادا کیا ، اس کا جواب کر بلا کے میدانوں ،کو فہ کے با زاروں اوردمشق کے در با روں سے پوچھیں!!
مختصر یہ کہ سیدہ کے ذاتی اور اضافی امتیازات کے با رے میں اتنا کہنا ہی کا فی ہے کہ کا ئنات ہست و بود میں کوئی اور خا تون ایسی نہیں ہے ۔ جس کے تمام انسانی رشتے اسقدر بلند اور بر تر ہو ں ۔ لیکن در حقیقت اضا فی کما لا ت ہمیشہ دو سرے انسان کے ہوتے ہیں اور ذاتی کمالات خو د اپنے ہوتے ہیں۔ چاہے زور بازو سے حا صل کیئے ہوں یا وہ کرمِ پر وردگار کا نتیجہ ہوں ۔لیکن بہر حال ان کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے ۔ وہ ذا تی کمالا ت جو حقیقی و معنوی کما لات ہیں اور آپ کو بحیثیت آئیڈیل پیش کر تے ہیں ،یہ ہیں:
آپ طا ہرہ ہیں ! کیو نکہ آیہ تطہیر میں شا مل ہیں ۔
آپ صدیقہ ہیں ! کیونکہ میدان مبا ہلہ میں مر سل اعظمۖ کی حقا نیت کے گواہوں میں واحد خا تون آپ تھیں ۔
آپ شجا ع ہیں ! کیونکہ احد کے میدان اور دربار خلیفہ میں جا کر قوت ِ قلب وجگر اور زور زبان کا اظہار کیا ۔
آپ محدثہ ہیں ! کیو نکہ مصحف فا طمہ کی ما لک ہیں ۔
الغر ض جنا ب فا طمہ زھرا ایک آئیڈیل بیٹی ،رفیقہ حیا ت ، ماں اور عو رت کی شکل میں بلند ترین مقام پر نظر آتی ہیں ۔آپ صرف ہر انسان کی آئیڈیل ہیںبلکہ ہر اس رشتے کی بھی پسندیدہ اور ideal شخصیت ہیںجس نے آ پ کو بیٹی ، بیوی اورماں کے روپ میں دیکھا جیسے آپ کی وفات کے بعد حضرت علی سے سوال کیا گیا کہ فا طمہ کیسی تھیں ؟آپ نے فر ما یا:
” فا طمہ بنت محمد ۖبہتر ین گھر والی تھیں ۔ انھوںنے ذرابھر بھی مجھے تکلیف نہ دی ۔ وہ جنت کا ایک خو شبو دار پھول تھیں جسکی مہک سے میرا دل و دماغ معطر ہے انھیں کبھی فر اموش نہیں کر سکتا ۔”
حضرت امام حسین فر ماتے ہیں : میں اپنی مادِرگرامی کو دعا ئیں ما نگتے ہوئے دیکھا کر تا تھا لیکن ان دعا ئوں میں ایک دعا بھی اپنے لیے نہ ہو تی تھی ۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
” تمام جہا ں کی عور تیں میں بہتر عورتیں چار ہیں مریم ۔ آسیہ۔ خدیجہ اور فاطمہ ۔ اور ان چاروں میں افضل ترین فا طمہ بنتِ محمد ۖہیں ۔”
پس آپ کی ذات اقدس اس جہاں کی ideal ہستیوں کی بھی ideal ہے تو پھر ہمارے لیے آپ یقیناایک model role ہیں اور کیوں نہ ہوں ، آپ نے ہی تو عورت کو عزت ، احترام اور وقار بخشا ۔سیدہ کے با حیا اور پا کیزہ کر دار نے عرب کی جا ہل قوم کو یہ احساس دلا یا کہ عورت ایک پھول ہے اور اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے ، اس کی حفا ظت کر نا چا ہیے ۔آپ کے فرمان کے مطا بق:
” عورت کے حق میں بہترین شے یہ ہے کہ نہ مرد اُسے دیکھیں اور نہ وہ مر دوں کو دیکھے ۔”
یوں جناب فا طمہ زھرا (س)ہمارے لیے ایک نمو نہ عمل ٹھہریں ۔ بلا شبہ آپ ہمارے لیے آئیڈیل ہیں اور آپ کی ذات اقدس کے حوالے کے بغیر ہماراوجود ادھو را اور نا مکمل ہے ۔