آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی
اس واقعہ کی عظمت کا پہلو یہی ہے کہ ا س میں خالصتاََ خداہی کےلئے قیام کیا گیا ہے
جامعہ امام صادق ع کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی نے مسجد جامعہ امام صادق ع میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کربلا کی روح و حقیقت یہ ہے کہ امام حسین ع اس واقعہ میں ایک لشکر یا انسانوں کی ایک گروہ کے مد مقابل نہیں تھے ، بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اس واقعہ کی یہی بات قابل اہمیت ہے ۔ سالار شہیدان اس وقت کج روی ظلمت اور ظلم کی ایک پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے تھے اور یہ پوری دنیا تمام مادی اسباب وسائل کی مالک تھی ۔ سب ہی اس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کی یہی چیزیں دوسروں کی وحشت کا سبب بنی ہوئی تھیں ۔ ایک معمولی انسان کا بدن اس دنیائے ظلمت و ظلم کی ظاہری حشمت ، شان و شوکت اور رعب و دبدبہ دیکھ کر لرز اٹھتا تھا لیکن یہ سرور شہیداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اس جہان شر کے مقابلے میں ہر گز نہیں لرز ے ، آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے کسی قسم کا شک و تردید کیا ، جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زیادتی کا مشاہدہ کیا تو آپ فوراََ میدان میں اتر آئے ۔ اس واقعہ کی عظمت کا پہلو یہی ہے کہ ا س میں خالصتاََ خداہی کےلئے قیام کیا گیا ہے ۔ علامہ صاحب نے خبردار کیاکہ عالمی استعمار سے دولت اور طاقت کے بل بوتے پر جہاں اہل حق سے حق کا ناطہ توڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کرتے ہےں ، وہیں سادہ لوح مسلمانوں کے خام اذہان میں جھوٹ کے قلعے تعمیر کرکے نہ صرف انکو حق سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ انکے عقائد پر کاری ضربیں لگا کر انکی عاقبت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ یوں ان مسلمانوں کے درمیان نفرت اور علیحدگی کی دیواریں چنی گئیں ہےں ، جو کم از کم نواسہ رسول ص کے نام پر شیر و شکر تھے ۔ انداز چاہے جدا تھے ، لیکن مقصد ایک تھا اور وہ حسین ع سے محبت اور یزید سے نفرت رکھتے تھے ۔
جامعہ امام صادق ع کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی نے مسجد جامعہ امام صادق ع میں مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کربلا کی روح و حقیقت یہ ہے کہ امام حسین ع اس واقعہ میں ایک لشکر یا انسانوں کی ایک گروہ کے مد مقابل نہیں تھے ، بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اس واقعہ کی یہی بات قابل اہمیت ہے ۔ سالار شہیدان اس وقت کج روی ظلمت اور ظلم کی ایک پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے تھے اور یہ پوری دنیا تمام مادی اسباب وسائل کی مالک تھی ۔ سب ہی اس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کی یہی چیزیں دوسروں کی وحشت کا سبب بنی ہوئی تھیں ۔ ایک معمولی انسان کا بدن اس دنیائے ظلمت و ظلم کی ظاہری حشمت ، شان و شوکت اور رعب و دبدبہ دیکھ کر لرز اٹھتا تھا لیکن یہ سرور شہیداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اس جہان شر کے مقابلے میں ہر گز نہیں لرز ے ، آپ میں کسی بھی قسم کا ضعف و کمزوری نہیں آئی اور نہ ہی آپ نے کسی قسم کا شک و تردید کیا ، جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زیادتی کا مشاہدہ کیا تو آپ فوراََ میدان میں اتر آئے ۔ اس واقعہ کی عظمت کا پہلو یہی ہے کہ ا س میں خالصتاََ خداہی کےلئے قیام کیا گیا ہے ۔ علامہ صاحب نے خبردار کیاکہ عالمی استعمار سے دولت اور طاقت کے بل بوتے پر جہاں اہل حق سے حق کا ناطہ توڑنے کے لئے تمام حربے استعمال کرتے ہےں ، وہیں سادہ لوح مسلمانوں کے خام اذہان میں جھوٹ کے قلعے تعمیر کرکے نہ صرف انکو حق سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ انکے عقائد پر کاری ضربیں لگا کر انکی عاقبت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ یوں ان مسلمانوں کے درمیان نفرت اور علیحدگی کی دیواریں چنی گئیں ہےں ، جو کم از کم نواسہ رسول ص کے نام پر شیر و شکر تھے ۔ انداز چاہے جدا تھے ، لیکن مقصد ایک تھا اور وہ حسین ع سے محبت اور یزید سے نفرت رکھتے تھے ۔