امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی روز عاشورا میں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل کو کباب کر دیتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خلاف بر انگیختہ ہوجاتا ہے کربلا کا الم ناک واقعہ اس قدر دل ہلا دینے والا ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھلا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔
اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگیختہ ہونے اور ان کے عظیم اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے یہ بات جامعہ امام صادق کے پرنسپل علامہ محمد جمعہ اسدی نے مجلس عزا ء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر انسان جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی کیفیت شہادت سنتا ہے کہ وہ بھوکے پیاسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمین پر شہید کر دئیے گئے تو بے اختیا ر اس کی آنکھیں آنسو بہانا شروع کرتی ہے اور اس کے قلب و دماغ میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پورے وجود سے یزید کی پلیدی اور قساوت قلبی پر لعنت وملامت کرتا ہے۔ جہاں بھی گریہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ایک قسم کا نہی عن المنکر دین کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔ گریہ کی چند قسمیں ہیں جیسے خوف خدا سے گریہ ،شوق کا گریہ، محبت کا گریہ وغیرہ اگر اس گریہ کا صحیح اور مناسب مقصد ہو تو یہ گریہ اپنی تمام قسموں میں سب سی زیادہ اچھا ہے۔ ایک گریہ مایوسی ،لاچاری،عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گریہ ذلت کہتے ہیں اور اس طرح کا گریہ ان عظیم ہستیوں سے بہت دور ہے اور اولیائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گریہ کبھی نہیں کرتے۔ اسی طرح گریہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گریہ قابل مذمت اور نقصان دہ ہے لیکن مثبت گریہ اپنے ساتھ بہت سے اصلاحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ گریہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتیوں کے خلاف قیامت برپاکرنے اور جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔