کل بروز بدھ (سات دسمبر 21ٓ015) پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پیغمبر اکرم محمد مصطفی ﷺّ کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے ادارہ امور اسلامی کوئٹہ بلوچستا کی جانب سے رسول اکرم (ص) کی سیرت طیبہ کا پیغام، قیام امن، اسلامی بیداری اور دہشت گردی کا خاتمہ کے عنوان سے سرینا ہوٹل میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں شہر کے مختلف عمائدی کے علاوہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے پھر پور شرکت کی۔ اس سیمنار کی خاص بات یہ تھی کہ ایرانی قونصل جنرل جناب آقائے حسین یحیوی کے علاوہ بلوچستان کے وزیر اعلی جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی شرکت کی اور خطاب کیا۔
سیمنار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، تلاوت، دومشہور قاریان قرآن جناب قاری خورشید اور قاری فضل حق نے کی۔ جناب ابراہیم مجددی صاحب نے نعت رسول (ص) مقبول سے اس نورانی محفل کو چارچاند لگادئیے۔
جن علماء کرام نے اس سیمینار میں شرکت کی ان میں سر فہرست جناب حجت السلام المسلمین علامہ جمعہ اسدی (صدر ادارہ امور اسلامی کوئٹہ بلوچستان، امام جمعہ اور پرنسپل جامعہ امام صادق کوئٹہ)، جامعہ امام صادق کے اساتید مولانا شیخ احمد نوری، مولانا شیخ ابراہیم حلیمی، مولانا غلام حسین وجدانی، مولانا اکبر حسین زاہدی، دارالعلم جعفری کے پرنسپل علامہ رفیعی، ان کے علاوہ اہل سنت کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام جن میں مولانا ارش یاوین، قاری عبدالرحمن، ڈاکٹر عبدالودود،حافظ لطیف الرحمن، جماعت اسلامی کوئٹہ کے امیر مولانا امین اللہ، جمعیت علماء پاکستان کوئٹہ کے امیر مولانا ولی محمد ترابی، مولانا عبداللہ اشعری اور دیگر علماء کرام بھی شامل تھیں۔ تمام علماء کرام نے بالاتفاق امت مسلمہ کی بیداری اور دہشت گردی کے خاتمے پر زور دیا اورکہا کہہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں اور اختلاف بہت کم ہیں اس کے باوجود ہم آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ہمیں قرآن وسیرت رسول اکرم(ص) سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستا کو جس مقصد کے لئے بنایاگیا آج ہم اس مقصد سے دور ہیں اور اسے بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ جو کہاجاتاہے کہ علماء آپس میں دست وگریبان ہیں اور اختلاف کا شکار ہیں یا علماء ہی اس بد امنی اور انتشار کا باعث ہیں تو اس کے جواب میں یہ کہاجاسکتاہے کہ پاکستان بننے سے لیکر آج تک علماء نے پاکستان پر حکومت نہیں کی، علماء نے پاکستان کو دوٹکڑے نہیں کیا۔ جب علماء کو اختیارات ہی حاصل نہیں تو علماء کیا کرسکتے ہیں۔ یہ انتشار پھیلانا تو بعض سیاستدانوں کا کھیل ہے جو وہ عوام کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہود و نصاری مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں لہذا ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ بعض علماء نے اسلامی ممالک میں اتحاد و یکجہتی، باہمی تجارت، اسلامی ممالک کی ایک کرنسی اور ویزا کی پابندی ختم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ جب اکثر یورپی ممالک یہ کام کر سکتے ہیں تو ہم مسلمان کیوں نہیں کر سکتے تو کہ اسلامی ممالک ترقی کرسکیں۔ اس سے بھی باہمی اتحاد کو فروغ ملےگا۔
کوئٹہ میں ایرانی سفارت خانے کے قونصل جنرل جناب حسین یحیوی نے رسول اکرم (ص) کی سیرت کو اپنانے کے لئے زور دیا اور بعض احادیث کی روشنی میں کہا کہ تفرقہ بازی کسی بھی صورت میں مسلمانوں کی مصلحت میں نہیں ہے، ہمارا خدا، ہمارا رسول، ہماری کتاب، ہمارا قبلہ اور ان کے علاوہ ہمارا دشمن بھی ایک ہے جسے پہنچاننے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے مشترکہ دشمن کو پہنچان لیا تو ہم آپس میں متحد ہوسکتے ہیں۔
ادارہ امور اسلامی کے صدر جناب حجت السلام مولانا جمعہ اسدی نے اپنے خطاب میں قرآن کی آیات سے استناد کرتے ہوئے کہا کہ رسول اکرم(ص) اور تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد علم کو پھیلانا اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنا تھا، جب تک ہہم قرآن کی روشنی میں علم حاصل نہیں کرینگے اس وقت تک دشمن ہمیں آپس میں لڑاتارہے گا۔ رسول کے آنے کا دوسرا مقصد لوگوں کا تزکیہ ہے یعنی ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک کرنا رسول (ص) کی ذمہ داری ہے۔ آج اگر ہم نے خود کو اخلاقی برائیوں سے پاک نہیں کیا تو یہ بھی ہماری ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے اور اسلامی معاشرے میں فساد پھیلانے کی اہم وجہ بن سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کسی بھی صورت میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں دہشت گردی نہیں ہے۔ ہم نے فقط اس بلوچستان میں ایک ہزار پانچ سو سے زیادہ شہید دیئے ہیں اور ڈھائی ہزار سے زیادہ زخمی ہیں جو مختلف واقعات میں دہشت گردی کا نشانہ بنےہیں۔ لہذا ہم پشاور میں شہیدہونے والے معصوم بچوں کی شہادت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اسی طرح ان خاندانوں کے غم کو بھی صحیح طور پر درک کرتے ہیں جنھوں نے اس دہشت گردی کے واقعے میں اپنے جگر پاروں کو کھویا لہذا ہم اس سیمینار کے ذریعے ان خاندانوں سے مکمل ہمدردی کرتے ہیں اور حکومت سے خصوصا جناب ڈاکٹر عبدالمالک وزیر اعلی بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں پشاور اورکوئٹہ سمیت ملک میں ہونے والے دہشت گردی کےواقعات ملوث عناصر کو ہر صورت میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ انھوں نے آخر میں تمام شرکاء اور خصوصا ایرانی قونصل جنرل جناب یحیوی اور وزیر اعلی جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا اس سیمینا میں تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔
اس سیمینار میں آخری خطاب وزیر اعلی جناب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں ادارہ امور اسلامی کے منتظمین کا شکریہ اداکرتاہوں کہ انھوں نے مجھے اس سیمینار میں دعوت دی اور پچھلے سال بھی میں اس سیمینار میں شریک ہواتھا لہذا مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ اس طرح علماء ایک میز پر اور ایک محفل میں بیٹھ کر اتحاد کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بھیاس دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں اس لئے کہ ملک کا بہت بڑا سرمایہ اس دشہت گردی کی روک تھام پر خرچ ہورہا ہے۔ کاش یہ سرمایہ ملک میں تعلیم ، بے روزگاری اورملکی ترقی پر خرچ ہوتا۔ آج بھی روزانہ جب میں آفس جاتاہوں تو دہشتگردی کے واقعات میں شہید ہونے والے آٹھ، دس افراد کے سلسلے میں تین، چار فائلیں میری میز پر آتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس صوبے میں ایک عرصے سے بلوچ، پٹھان اور ہزارہ برادری ساتھ ملکر زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں بلکہ اسطرح کے واقعات میں غیر ملکی ایجنٹ ملوث ہیں۔ آخر میں انہوں نے ایک بار پھر ادارہ امور اسلامی خصوصا علامہ جمعہ اسدی اور قاری عبدالرحمن صاحب کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب بھی ہم ان حضرات کو کال دیتے ہیں یہ علماء ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
اس سیمینار کا اختتام دعا پر ہوا اور آخر میں تمام شرکاء نے ملکر ایک ہزار پر کھانا کھایا۔