حضرت امام محمد تقی علیہ السلام حضرت امام محمد تقی ؑ دنیا کے تمام فضائل کے حامل تھے ،دنیا کے تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ہونے کے باوجود آپ ؑ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے ،آپ ؑ سات سال اور کچھ مہینے کی عمر میں درجۂ امامت پر فائز ہوئے ،آپ ؑ نے ایسے علوم و معارف کے دریا بہائے جس سے تمام عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں ، تمام زمانوں اور آبادیوں میں آپ ؑ کی ہیبت اور آپ کی عبقری (نفیس اور عمدہ )صفات کے سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی۔ اس عمر میں بھی فقہا اور علماء آپ ؑ سے بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مسا ئل پوچھتے تھے جن کا آپ ؑ ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے ۔ راویوں کا کہنا ہے کہ آپ ؑ سے تین ہزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپ ؑ نے بیان فرمائے ہیں ۔ظاہری طور پر اس حقیقت کی اس کے علاوہ اور کو ئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی ہے کہ شیعہ اثناعشری مذہب کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ اہل بیت ؑ کو علم ،حکمت ،اور فصل الخطاب عطا کیا ہے اور وہ فضیلت عطا کی ہے جو کسی شخص کونہیں دی ہے ہم ذیل میں مختصر طور پر اس امام ؑ سے متعلق بعض خصوصیات بیان کر رہے ہیں:
آپ ؑ اپنے والد بزرگوار کی زند گی میں
امام ؑ نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ اور آغوش پدری میں پرورش پا ئی اور تکریم و محبت کے سایہ میں پروان چڑھے، امام رضا ؑ آپ ؑ کو آپ ؑ کے نام کے بجائے آپ ؑ کی کنیت ابو جعفر سے پکارتے تھے ، جب مام رضا ؑ خراسان میں تھے تو امام محمد تقی ؑ آپ ؑ کے پاس خطوط لکھا کرتے تھے جو انتہا ئی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ہوتے تھے ۔امام علی رضا ؑ نے اپنی اولاد کو جو اعلیٰ تربیت دی ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ؑ ان کو ہمیشہ نیکی، اچھا ئی اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے جیسا کہ آپ ؑ نے خراسان سے اُن کے نام ایک خط میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر فرمایا :’’میری جان تم پر فدا ہو مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض غلام نے تمہاری سواری کو باغ کے چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ہیں ،یہ ان کی کنجو سی کی وجہ سے ہے تاکہ کو ئی بھی تمھیں راستہ میں نہ ملنے پائے ،لہٰذا میرا تمہاری گردن پر جو حق ہے اس کی بنا پر میں یہ چا ہتا ہوں کہ تمہاری آمد و رفت صرف بڑے دروازے سے ہونی چا ہئے ،اور جب بھی تم سوار ہو کر نکلو تو تمہارے ساتھ سونے ،چا ندی (درہم و دینار کے سکے )ضرور ہونا چا ہئیں ،تاکہ جو بھی تم سے مانگے اس کو فوراً عطا کردو ،اور تمہارے چچاؤں میں سے جو کو ئی تم سے نیکی کا مطالبہ کرے اس کو پچاس دینار سے کم نہ دینا اور تمھیں زیادہ دینے کا بھی اختیار ہے ،اور اپنی پھوپھیوں کو بھی پچاس دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ دینے کا تمھیں اختیار ہے، خدا تمھیں بہترین توفیق عطا فرمائے لہٰذا انفاق کرتے رہو اور خدا کے سلسلہ میں کسی طرح کے بخل کا خیال مت کرو‘‘۔
کیا آپ ؑ نے اس عظیم الشان تربیت کا اندازہ لگایا ہے جس میں شرافت و کرم بالکل نمایاں و آشکار ہے ؟ امام رضا ؑ نے اپنے فرزند ارجمند کے دل کی گہرائیوں میں مکارم اخلاق اور اچھے اخلاق کو بھر دیا ہے تاکہ وہ اپنے جد کی امت کے لئے اسوۂ حسنہ یا نمونۂ عمل بن سکیں ۔
خاندان نبوت کا اعزاز و اکرام
خاندان نبوت و رسالت امام محمد تقی ؑ (جبکہ آپ ؑ بالکل نو عمر ہی تھے )کے ذریعہ عزت و شرافت و بزرگی میں اور چند قدم آگے نظر آتا ہے ،اور کمسنی کے باوجود ان کی امامت و فضا ئل کے معترف ہیں جیسا کہ محمد بن حسن عمارہ سے روایت ہے :میں مدینہ میں علی بن جعفر کے یہاں تھا اور دو سال سے آپ ؑ کے بھا ئی یعنی امام موسیٰ کاظم ؑ کے اقوال و احادیث لکھا کر تا تھا ،جب ابو جعفر محمد بن علی رضا مسجدالنبی ؐمیں داخل ہوئے تو علی بن جعفر نعلین اور ردا ء کے بغیر آپ ؑ کے پاس پہنچے، آپ ؑ کے ہاتھوں کو چوما اور آپ ؑ کی تعظیم و تکریم کی اور امام محمد تقی ؑ نے اُن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے عرض کیا :’’اے چچا خدا آپ ؑ پر رحم فرمائے، تشریف رکھئے ‘‘۔
علی بن جعفر بڑے ہی ادب اور خضوع سے یہ کہتے ہوئے جھکے :اے میرے سردار !میں آپ ؑ کے کھڑے ہوتے ہوئے کیسے بیٹھ سکتا ہوں ؟جب امام محمد تقی ؑ واپس چلے گئے تو علی بن جعفر اصحاب کے پاس آئے اصحاب نے اُن سے کہا : آپ ؑ ان کے باپ کے چچا ہیں پھر بھی اُن کی اتنی تعظیم کرتے ہیں!! علی بن جعفر نے جذبۂ ایمانی کے انداز میں ، جواب میں اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جواب دیا ،خاموش رہو کیونکہ جب خدا نے میری اس بزرگی کو امامت کے لئے مناسب نہ سمجھا اور اسی جوان کو امام قرار دیا اور اُ س کو اس کے مناسب مقام پر رکھا تو میں تمہاری بات سے خدا کی پناہ چا ہتا ہوں بلکہ میں تو اُن کا غلام ہوں ۔یہ حدیث علی بن جعفر کے عمیق ایمان پر دلالت کر تی ہے، آپ ؑ نے اپنے اصحاب پر یہ واضح کر دیا کہ بیشک امامت انسان کی مشیت اور اس کے ارادہ کے تابع نہیں ہو سکتی ،امرامامت اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے یہ ایسا امر ہے جس کو خداوند عالم اپنے بندوں میں سے جسے چا ہتا ہے عطا کر دیتا ہے چا ہے وہ عمر میں چھوٹا ہو یا بڑا ۔
آپ ؑ کا زہد
امام محمد تقی ؑ اپنی ساری زند گی میں متقی و پرہیز گار و زاہد رہے ،آپ ؑ نے دنیا میں اپنے آباء و اجداد کی طرح زہد اختیار فرمایا ،ان ہی کی طرح زندگی بسر کی ،جنھوں نے دنیا سے بے رغبتی کی اور خدا سے لو لگا ئی۔ امام محمد تقی ؑ جوان تھے اور مامون اپنے پاس آنے والے حقوق شرعیہ جن کی ما لی حیثیت بہت زیادہ ہو تی تھی سب کے سب آپ ؑ کے پاس بھیج دیتا تھا آپ ان میں سے اپنے مخصوص امور کے علاوہ کچھ بھی خرچ نہیں کرتے تھے، بقیہ سب کا سب فقرا اور محروموں پر خرچ فرمادیتے تھے ،حسین مکاری سے روایت ہے کہ جب امام محمد تقی کی بغداد میں اتنی تعظیم وتکریم دیکھی تو میں نے خود سے کہا کہ اب میں اپنے وطن واپس نہیں پلٹوں گا اور عنقریب بغداد میں مقیم ہو کر نعمتوں سے مستفیض ہوں گا، امام اس کے دل کی بات سے آگا ہ ہوگئے اور اس سے فرمایا :اے حسین! مجھے میرے جد رسول اللہ کے حرم میں جو کی روٹی اور دلاہواموٹا موٹانمک اس سے زیادہ محبوب ہے جس کے بارے میں توسوچ رہا ہے ۔‘
امام ملک اور سلطنت کے خواہاں نہ تھے، آپ بالکل حکومت کی طرف سے کئے جانے والے مظاہر کی کوئی پروا نہیں کرتے آپ نے ہمیشہ زہدا ختیار کیا اور دنیا سے رو گردان رہے ۔
آپؑ کی سخاوت
امام ابو جعفر ؑ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض تھے، اکثر لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے اور آپ ؑ کا فقراکے ساتھ نیکی کرنا مشہور تھا اور آپ کو آپ کے بہت زیادہ کرم اور سخاوت کی وجہ سے جواد کے لقب سے نواز ا گیا ہم ذیل میں آپ کی سخاوت کے کچھ واقعات نقل کررہے ہیں:
۱۔مورخین نے روایت کی ہے کہ احمد بن حدید اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ حج کیلئے نکلے تو ان پر ڈاکوؤں نے حملہ کر کے ان کا سارا مال ومتاع لوٹ لیا، مدینہ پہنچ کر احمد امام محمد تقی کے پاس گئے اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے اُن کیلئے ایک تھیلی لانے کا حکم دیا اور اُن کو مال عطا کیا تا کہ پوری جماعت میں تقسیم کردیں اس مال کی مقدار اتنی ہی تھی جتنا مال ان کا لوٹا گیاتھا۔
۲۔عتبی سے روایت ہے کہ ایک علوی مدینہ میں ایک کنیز خرید نا چا ہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا جس سے اس کو خرید ا جا سکے تو اس نے امام محمد تقی سے اس کی شکایت کی امام نے اس کے مالک سے سوال کیا تو اس نے آپ کو بتایا، امام نے اس کے مالک سے مزرعہ(کھیت) اور کنیز کو خرید لیا ،علوی نے کنیز کے پاس پہنچ کر اس سے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ اس کو خرید اجا چکا ہے لیکن نہیں معلوم اس کو مخفی طور پر کس نے خرید اہے علوی نے امام کی طرف متوجہ ہو کر بلند آواز میں عرض کیا ۔فلاں کنیز فروخت کردی گئی ہے ۔امام ؑ نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا تم کو معلوم ہے اس کو کس نے خرید ا ہے ؟اس نے جواب دیا :نہیں ۔امام اس کے ساتھ اس کھیت کی طرف گئے جس میں وہ کنیز تھی اور امام نے اس کو اس میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا تو اس نے اس میں داخل ہونے سے منع کیا چونکہ وہ اس کے مالک کو نہیں پہچانتا تھا، جب امام نے اس سے اصرار کیا کہ تو اس نے قبول کرلیا جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس میں کنیز کو دیکھا امام نے اس سے فرمایا کیا تم اس کو پہچا نتے ہو ؟اس نے کہا: ہاں ۔علوی کو معلوم ہو گیا کہ امام ؑ نے اس کو خریدلیا ہے۔امام نے اس سے فرمایا:یہ کنیز ’قصر‘مزرعہ غلہ اور جو کچھ اس قصر میں مال ودولت ہے سب تیرے لئے ہے، علوی خوش ہو گیا اور اس نے امام کا بڑی گر مجو شی سے شکریہ اداکیا ۔یہ امام ؑ کی سخاوت و کرم کے بعض واقعات تھے ۔
ماخوذ از کتاب ائمہ اہل بیت(ع) کی سیرت سے خوشبوئے حیات، ناشر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی