کوئٹہ ۔ جامعہ ۔ اہل سنت کے معاشرے میں زبانی طلاق ایسا مسئلہ ہے جس سے معاشرے کے اندر بے انتہا مشکلات وجود میں آتی ہیں چونکہ اہل سنت کی فقہ کی مطابق اگر مرد اپنی بیوی کے لیے اگر صرف زبان پر ہی لفظ طلاق لے آئے تو اس کی بیوی مطلقہ ہو جاتی ہےچاہے اس نے طلاق دینے کا قصد کیا ہو یا نہ، چاہے وہ ہنسی مزاح کی صورت میں ہو یا غصے کی حالت میں۔
مصر کی اسلامی یونیورسٹی الازہر نے اس مسئلے کے راہ حل کے لیے طلاق کا وہی طریقہ کار اپنانے کی کوشش کی ہے جو اہل تشیع کے یہاں پایا جاتا ہے۔
اہل تشیع میں نہ صرف زبان پر لفظ طلاق جاری ہو جانے سے طلاق نہیں ہوتا بلکہ طلاق کے لیے عربی زبان میں صیغہ پڑھنا اور وہ بھی دو گواہوں کے موجوگی میں ضروری ہے ورنہ طلاق منعقد نہیں ہوتا۔
مصر کی ویب سائٹ’’بوابہ القاھرہ‘‘ نے الازہر یونیورسٹی کے اساتید سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے شفاہی طلاق کو ناکافی قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ طلاق بھی نکاح کی طرح ’’دفتر ازدواج‘‘ میں درج ہونا چاہیے اور طلاق دیتے وقت بھی دو گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ اگر چہ بعض دیگر علماء نے اس گروہ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ مسئلہ اہل سنت کی فقہ کے مطابق نہیں ہے لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسا کرنے سے سنی سماج اور معاشرے کی بہت ساری مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔ اور فلموں اور ڈراموں میں بھی اگر میاں بیوی دونوں کام کر رہے ہوں اور اگر فلمی ڈائلوگ کو فلمائز کرنے کے لیے انہیں لفظ طلاق جاری کرنا پڑے تو انہیں دوبارہ نکاح کروانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
مصر کی مذکورہ ویب سائٹ نے مزید لکھا ہے کہ علمائے الازہر نے اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر احمد الطیب کی صدارت میں تین علمی نشستیں منعقد کیں اور آخر میں جامعۃ الازہر کی جانب سے ایک بیانیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق شفاہی طلاق اس وقت انجام پائے گا جب اس کے پیچھے مرد کا قصد اور ارادہ ہو گا نہ صرف مزاح یا غصے کی حالت میں لفظ طلاق کہنے سے طلاق انجام پا جائے گا۔
اس بیانیہ کے مطابق اگر کسی نے شفاہی طلاق دیا ہے تو اسے ثابت کرنا ضروری ہو گا تاکہ عورت کو اس کے حقوق دلوائے جا سکیں۔ اس بیانہ میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے طلاق کے بھی نکاح کی طرح کچھ شرائط ہیں جنہیں محقق ہونا چاہیے۔