33. قال رسول الله – صلی الله علیه و آله – : مَن اَصبَحَ لاَیهتَمُّ بِاُمُورِ المُسلِمینَ فَلَیسَ مِنهُم و مَن سَمِعَ رَجُلاً ینادِی یالَلمُسلِمینَ! فَلَم یجِبهُ فَلَیسَ بَمُسلِمٍ.
«الکافی، ج 2، ص 164»
جمعۃالوداع اور عالمی یوم القدس کے سلسلے میں جلوس یوم القدس ، جن نے نماز جمعہ کے بعد امام بارگاہ (کلان ہزارہ ) منعقد ہوا جس میں علماء کرام مختلف فرق اسلامی سے شرکت کے تہے۔
جامعہ امام صادق کے پرنسپل و امام جمعہ شہر کوئتہ علامہ محمد جمعہ اسدی شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا آزادی فلسطین، آزادی بیت المقدس و مسجد اقصٰی کے لیے خاص دن یعنی جمعۃ الوداع، یوم القدس کا انتخاب انتہائی دوراندیشی پر مبنی ثابت ہوا ہے۔ اس دن نہ صرف آزادی فلسطین کی خاطر ، بلکہ آزادی کشمیر ، بحرین، یمن اور مسلمین برمہ کے لیے بے آزادی مانگتے ہے۔
آج تمام مسلمانون (شیعہ اور سنی) عالمی یوم القدس کی ریلی میں زیادہ سے زیادہ شکوہ اور شان و شوکت سے شرکت کرکے مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی اور غاصب صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنی تاریخی ذمہ داری کو نبھائی ہے۔ آج کچھ سادہ لوح عاقبت نااندیش لوگ فقط چند سو ڈالر کی لالچ میں یوم القدس کے اجتماعات سے متعلق غیر ضروری سوال اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ اسلامی ریاستوں یوم القدس کے اجتماعات کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔؟ کیا اس سے اسرائیل ختم ہو سکتا ہے۔؟ کیا یوم القدس منانے سے فلسطین آزاد ہو جائے گا۔؟ یا یوم القدس کی ریلیوں میں امریکی و اسرائیلی پرچم جلانے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔؟ تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جان لیں کہ امریکہ و اسرائیل کے خلاف یوم القدس کے مظاہرے دنیائے اسلام کا شو آف پاور ہوتا ہے، جس میں یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ فلسطین کے عوام تنہا نہیں، پورا عالم اسلام ان کی حمایت میں پیش پیش ہے اور انہی اجتماعات کی بدولت ہی آزادی فلسطین کی شمع کو تقویت و جلا ملتی ہے اور انہی تحریکوں اور عملی و مسلسل کوششوں سے نہ صرف اسرائیل کا خاتمہ ممکن ہے، بلکہ ہر اس اسلامی ریاست کا قیام بھی ممکن ہے، جو کبھی ملت اسلامیہ کا حصہ تھی اور اب بھی وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
گزارش: رحمت ماندگار