کوئٹہ: ڈپٹی کمشنر آواران کے مطابق بلوچستان کے ضلع آواران میں زلزلے سے 216 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ ضلع کیچ میں 8 افراد جاں بحق ہوئے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق اب تک آواران سے 173 اور مشکے سے 33 لاشیں ناکالی جاچکی ہیں، متاثرین کی امدادی اور بحالی کا کام جاری ہے، عسکری ذرائع کے مطابق بلوچستان کے علاقے ترتیج میں زلزلے سے 500 گھر شدید متاثر ہوئے، تاہم فوج کی جانب سے متاثرین کو 100خیمے،اشیائے خورونوش فراہم کی گئیں ہیں، چیف سیکرٹری بلوچستان بھی زلزلے متاثرہ علاقوں کے دورے پر خضدار پہنچ گئے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے ضلع آواران میں فوری ایمر جنسی نافذ کردی ہے، آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج اور ایف سی کی امدادی ٹیمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے آواران اور خضدار بجھوا دی گئی ہیں، ایف سی کی ریسکیو ٹیم آواران کے گاؤں لاباش میں امدادی کاموں میں مصروف ہے، جبکہ امدای کارروائیوں کے لئے کراچی سے بھی فوجی دستہ روانہ ہوگیا ہے، دستے میں ایک فیلڈ اسپتال، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف، 60 گاڑیاں اور600 فوجی جوان اور افسران شامل ہیں، تاہم آواران میں آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی جاری ہے جن کی شدت 5.9 تک ریکارڈ کی گئی ہے۔
گذشتہ روز شام 4 بج کر 29 پر بلوچستان، خضدار، آواران، کوئٹہ، نوشکی اور قلات مین زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے، کراچی، سکھر، حیدرآباد، لاڑکانہ، دادو، خیرپور اور نوابشاہ سمیت مختلف علاقوں میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے، امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز بلوچستان کا علاقہ خضدار تھا جبکہ گہرائی صرف 10 کلومیٹر اور دورانیہ 8 سیکنڈز تھا، زلزلے کے جھٹکے بھارت اور متحدہ عرب امارات تک محسوس کئے گئے۔
گوادر: کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان میں آنے والے زلزلے کے بعد گوادر کے سمندر میں 20 سے 40 فٹ جزیرہ نمودار ہو گیا ہے۔
جزیرے کی اونچائی سطح سمندر سے20 سے 40 فٹ بلند بتائی جا رہی ہے اور یہ گوادر کے ساحل سے ڈیڑھ کلومیٹر دور نمودار ہوا ہے جسے دیکھنے کے لئے لوگوں کی ایک کثیرتعداد ساحل پرپہہنچ گئی، کوسٹ گارڈز کے حکام کا کہنا ہے کہ 1945 میں بھی آنے والے شدید زلزلے کے بعد ایک جزیرہ نمودار ہوا تھا جوایک سال کے عرصے میں خود بہ خود سمندر کی سطح سے نیچے چلا گیا ۔