امام محمد باقر(س) کی ہمہ گیر علمی شخصیت

343434پہلی رجب، امام پنجم کے یوم ولادت کی مناسبت سے

جامعہ ( کوئٹہ ): حضرت امام محمد باقر علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام ان ائمۂ اہل بیت علیہم السلام میں سے ہیں جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے منتخب فرمایا ہے اور ان کو اپنے نبی وصایت کے لئے مخصوص قرار دیا ہے ۔اس امام عظیم نے اسلامی تہذیب میں ایک انوکھا کردار ادا کیااور دنیائے اسلام میں علم کی بنیاد ڈالی ،امام ؑ نے یہ کا رنامہ اس وقت انجام دیا جب دنیائے اسلام میں ہر طرف فکری جمود تھا ،کو ئی بھی تعلیمی اور علمی مرکزنہیں تھا،جس کے نتیجہ میں امت مسلسل انقلابی تحریکوں سے دو چار ہورہی تھی جن میں سے کچھ بنی امیہ کے ظلم و تشدد اور بربریت سے نجات حاصل کرنا چا ہتے تھے اور کچھ لوگ حکومت پر مسلط ہو کر بیت المال کو اپنے قبضہ میں لینا چا ہتے تھے ۔انقلابات کے یہ نتا ئج علمی حیات کے لئے بالکل مہمل تھے اور ان کو عمومی زندگی کے لئے راحت کی کوئی امید شمار نہیں کیا جاسکتا ۔

امام محمد باقر ؑ نے علم کا منارہ بلند کیا ،اس کیلئے قواعد و ضوابط معین فرمائے ،اس کے اصول محکم کئے ، آپ ؑ اس کے تہذیبی راستے میں اس کے قائد اور معلم و استاد تھے ،آپ ؑ نے علوم کو بہت وسعت دی، ان ہی میں سے علم فضا اور ستاروں کا علم ہے جس سے اس زمانہ میں کو ئی واقف نہیں تھا، امام ؑ کو علم کے موجدین میں شمار کیا جا تا ہے ۔امام ؑ کے نزدیک سب سے زیادہ اہم مقصد ہمیشہ کے لئے اہل بیت ؑ کی فقہ اسلا می کو نشر کرنا تھاجس  میں اسلام کی روح اور اس کا جوہر تھا ، امام ؑ نے اس کو زندہ کیا ،اس کی بنیاد اور اس کے اصول قائم کئے ، آپ ؑ کے پاس ابان بن تغلب ،محمد بن مسلم ، برید،ابو بصیر،فضل بن یسار ،معروف بن خربوذ، زرارہ بن اعین وغیرہ جیسے بڑے بڑے فقہاء موجود رہتے تھے وہ فقہا جنھوں نے ان کی تصدیق کیلئے روایات جمع کیں اور ان کی ذکاوت و ذہانت کا اقرار کیا،اور اہل بیت ؑ کے علوم کی تدوین کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے ،اگر یہ نہ ہوتے تو وہ بڑی فقہی ثروت جس پر عالم اسلام فخر کرتا ہے سب ضائع و برباد ہو جا تی ۔امام ؑ کی سیرت کے اعتزاز و فخر کیلئے یہ ہے کہ آپ ؑ نے فقہا ء کی تربیت کی جس سے وہ بافضیلت ہوئے ،ان کو مرکزیت کے اعزاز سے نوازا،اور امت نے فتوے معلوم کرنے کے لئے اِن ہی فقہا ء کی طرف رجوع کیا امام ؑ نے ابان بن تغلب کے لئے فرمایا:’’مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے بتایا کر ومیں اپنے شیعوں میں تمہارے جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔

امام نے اِن فقہاء کے نفقہ کی ذمہ داری خود اپنے کا ندھوں پر لی ،ان کی زندگی میں اقتصادی طور پر پیش آنے والی ان کی تمام حاجتیں پوری کیں تاکہ ان کو تحصیل علم ،اس کے قواعد و ضوابط لکھنے اور اس کے اصول کو مدوّن کر نے میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے ،جب آپ ؑ کے دار فا نی سے ملک بقا کی طرف کوچ کر نے کا وقت آیا تو آپ ؑ نے اپنے فرزند ارجمند امام جعفر صادق ؑ کوان فقہاء کو نفقہ دینے کی وصیت فر ما ئی کہ ان کو تحصیل علم اور ان کو لوگوں کے درمیان نشر کرنے میں کو ئی معاشی مشکل پیش نہ آئے ۔یہ فقہا جو کچھ امام ؑ سے سنتے اس کو مدوّن کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے اور ان کو روشن فکر افراد کے لئے تدریس کرتے ،امام ؑ کے شاگرد فقیہ جابر بن یزید جعفی سے ستر ہزار روایات نقل ہو ئی ہیں۔

 جن میں سے اکثر احادیث فقہ اسلامی سے متعلق ہیں ،اسی طرح ابان بن تغلب سے احادیث کا ایک بہت بڑا مجموعہ نقل ہوا ہے ، احکام میں زیادہ تر عبادات ،عقود اور ایقاعات سے متعلق بہت زیادہ روایات جمع کی ہیں، فقہ اہل بیت ؑ کے مؤسس اور ناشر کا یہی حق ہے ۔آپ ؑ نے قرآن کریم کی تفسیر کا بڑا اہتمام کیا اس کے لئے مخصوص وقت صرف کیا ،اکثر مفسرین نے آپ ؑ سے کسب فیض کیا ،اور آپ ؑ نے بعض آیات کی تفسیر میں وارد ہونے والی اپنے آباء و اجداد کی روایات کو مدوّن کیا ۔قرآن کریم کی تفسیر میں ایک خاص کتاب تحریر فرما ئی جس سے فرقۂ جارودیہ کے سربراہ زیاد بن منذر نے روایت کی ہے ۔اور ہم نے اپنی کتاب ’’حیاۃالامام محمد باقر ؑ ‘‘میں وہ آیات تحریر کی ہیں جن کی تفسیر امام باقر ؑ سے نقل کی گئی ہے ۔امام ؑ نے بعض احا دیث انبیاء علیہم السلام کے حالات سے متعلق بیان فر ما ئیں ہیں جن میں انبیاء کا اپنے زمانہ کے فرعونوں کے ذریعہ قتل و غارت ،ان کی حکمتیں ،موعظے اور آداب بیان کئے گئے ہیں آپ ؑ نے سیرت نبویہ کو ایک مجموعہ کی صورت میں پیش کیا جس سے ابن ہشام ،واقدی اور حلبی وغیرہ جیسے مدوّن کرنے والوں نے نبی اکرم (ص) کے غزوے اور ان کی جنگوں کے حالات نقل کئے ہیں ، جس طرح ان سے آدابِ سلوک ،حسن اخلاق اور حسن اعمال کے سلسلہ میں بھی متعدد احادیث نقل کی ہیں ۔یہ بات شایانِ ذکر ہے کہ امام محمدباقر ؑ نے مسیحی ،ازراقہ ،ملحدین اور غالیوں کی جماعتوں سے مناظرے کئے اور مناظروں میں ان کو شکست دی خود فاتح ہوئے اور ان سب دشمنوں نے آپ کی علمی طاقت اور ان پر فوقیت کااعتراف کیا اور ہم یہ سب اپنی کتاب ’’حیاۃالامام محمد باقر ‘‘ میں ذکر کر چکے ہیں ۔بہر حال تاریخ نے امام محمد باقر ؑ جیسے کسی امام کا تعارف نہیں کرایا،آپ ؑ نے اپنی پوری زندگی لوگوں میں علم نشر کرنے میں صرف کر دی ،آپ ؑ نے ’’جیسا کہ راویوں نے کہا ہے ‘‘یثرب میں ایک بہت بڑے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں لوگوں کوعلم فقہ ،حدیث ،فلسفہ ،علم کلام اور قرآن کریم کی تفسیر کی غذا سے سیر کیا ۔

تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی اہمیت اس وقت اورعروج پر پہنچ گئی جب آپ ؑ نے امپراطوری رومی شہنشاہیت کے چنگل سے اسلامی سکہ کو آزاد کر ایا اور اس کی ڈھلائی نیزاس پر تحریر کی جانے والی عبارت بھی تعلیم فرما ئی اور اس کے بعد آپ کی برکت سے اسلامی سکہ رائج ہو گیا۔چنانچہ اس سلسلہ میں روایت ہے :عبد الملک نے ایک کاغذ پر نظر ڈالی تو اُس پر مصری زبان میں کچھ لکھا ہوا دیکھااُس کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا تو وہ عیسائیت کے تین نعرے ’’باپ ،بیٹا اور روح ‘‘ تھے تو اس کواچھانہیں لگا ،اس نےاپنے مصر کے گورنرعبدالعزیز بن مروان کو انھیں باطل کرنے کیلئے لکھا اور اس کو حکم دیاکہ سکوں پرنعرۂ توحید’’شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہُ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَ‘‘ لکھا جائے ، اور اس نے اپنے تمام گورنروں اور والیوں کوسکوں پرروم کے نقش شدہ شعارکو باطل کرنے کاحکم دیا،جس کسی کے پاس وہ نقش شدہ شعار ملے اس کو سزادینے کیلئے کہا،ڈھالنے والوں نے سکوں پر یہ شعار لکھا ،اس کو پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلا دیا،جب بادشاہ روم کو یہ معلوم ہوا تو وہ بہت غصہ ہوا ،اس نے عبدالملک سے سکوں کو ان کی پہلی صورت میں ہی لانے کیلئے کہا اور اس نے اپنے خط کے ساتھ ایک ہدیہ عبدالملک کے پاس روانہ کیا جب وہ ہدیہ عبدالملک کے پاس پہنچا تو اس نے وہ ہدیہ بادشاہ روم کو واپس کردیا اور اس کے خط کا کو ئی جواب نہیں دیا ،باد شاہ روم نے اور زیادہ ہدیہ روانہ کیا اور دوسری مرتبہ خط میں تحریر کیا کہ وہ سکوں کو ان کی پہلی حالت میں ہی پلٹا دے عبد الملک نے کو ئی جواب نہیں دیا اور پھراس کا ہدیہ واپس کر دیا ، قیصر روم نے عبد الملک کویہ دھمکی دیتے ہوئے تحریر کیا کہ میں درہم و دینار کے اوپر نبی ؐ کے سلسلہ میں نا سزا الفاظ لکھواکر تمام اسلامی ممالک میں رائج کرادونگا اور تم کچھ نہ کرسکوگے ، عبدالملک نے اپنے تمام حوالی و موالی جمع کر کے ا ن کے سامنے یہ بات پیش کی تو روح بن زنباع نے اس سے کہا : بادشاہ تم بہتر جانتے ہو کہ اس موقع پر کون اسلام کی مشکل کشا ئی کر سکتا ہے لیکن عمداً اس کی طرف رخ نہیں کرتے۔ بادشاہ نے انکار کرتے ہوئے کہا :خدا تجھے سمجھے بتا تو سہی وہ کو ن ہے ؟ روح بن زنباع نے کہا :علیک بالباقرمن اہل بیت النبي ؐ۔میری مراد فرزند رسول امام محمد باقر ؑ ہیں ۔

عبدالملک نے روح بن زنباع کے مشورہ کا مثبت جواب دیا اور اس نے فوراً مدینہ کے گورنر کوامام محمد باقر ؑ اور ان کے چاہنے والوں کو بھیجنے کے لئے تحریر کیا اور ان کے لئے سو ہزار درہم دینے اوران کے خرچ کیلئے مزیدتین لاکھ درہم اضافہ کرنے کا وعدہ کیا ،یثرب کے والی نے عبدالملک کی بات کو عملی جا مہ پہنایا، امام محمد باقر ؑ یثرب سے دمشق پہنچے، عبدالملک نے رسمی طور پر آپ ؑ کا استقبال کیا اور اس کے بعد اپنا مطلب بیان کیا امام ؑ نے اس سے فرمایا :تم گھبراؤ نہیں یہ دو اعتبار سے کو ئی بڑی بات نہیں ہے : ایک تو یہ کہ صاحب روم نے جو تمھیں رسول اللہ (ص) کے متعلق دھمکی دی ہے اس میں خدا اس کو آزاد نہیں چھوڑے گا ’’یعنی وہ جو چا ہے کر ے‘‘،دوسرے یہ کہ اس میں حیلہ و دھوکہ ہے ۔عبدالملک نے کہا : وہ کیا ہے ؟امام ؑ نے فرمایا :’’تم اسی وقت حکاک اور کا ریگروں کو بلاؤاور اپنے سامنے اُن سے درہم و دینار کے سکّے ڈھلواؤ سکّہ کے ایک طرف سورۂ تو حید اور دو سری طرف پیغمبر اسلام (ص) کا نا م نامی لکھواور سکہ کے مدار میں جس شہر میں وہ سکّے بنے ہیں اس شہر کا نام اور سَن لکھا جائے ‘‘۔

آپ ؑ نے اس کو سکہ کی کیفیت اور وزن وغیرہ اور ان کو ڈھالنے کے طریقہ کی تعلیم دی،اس کے بعد اس رنگ کے سکوں کو تمام عالم اسلام میں رائج کر نے کا حکم دیااور رومی سکوں کو خلاف قانون قرار دیا ،اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کو سخت سزا دی جا ئے گی ۔عبدالملک نے امام ؑ کے اس فرمان کو نافذ کر دیا ،جب بادشاہ روم کو یہ معلوم ہوا تو وہ بہت حیرا ن ہوا اور اس کی تمام آرزوؤں پر پا نی پھر گیا پہلے تمام سکّے خلاف قانون قرار دئے گئے اور امام کے بنوائے ہوئے سکوں سے معاملات انجام دئے جا نے لگے اور وہی سکّے عباسیوں کے زمانہ تک رائج رہے ۔عالم اسلام امام محمد باقر ؑ کا ممنون کرم ہے کہ امام ؑ نے اس پر احسان کیا اور اس کو روم کا غلام بننے سے نجات دی ،اور حاکم اسلام سے اسلامی ملک میں مستقل طور پراسلامی نعرہ ایجادکرادیا ۔ہم امام محمد باقر ؑ کے اقوال بیان کر نے سے پہلے ان کے بعض اعلیٰ صفات بیان کر رہے ہیں جن کی وجہ سے عالم اسلام آج بھی اپنا سر بلند کئے ہوئے ہے ۔آپ ؑ کاحلم امام محمد باقر ؑ کی ایک نمایاں صفت حلم ہے ،سوانح حیات لکھنے والوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام ؑ نے اس شخص پر ستم روا نہیں سمجھا جس نے آپ ؑ کے ساتھ برا سلوک کیا ،آپ ؑ ہمیشہ ان سے خو شروئی اور احسان کے ساتھ پیش آتے ،مؤ رخین نے آپ ؑ کے عظیم حلم کی متعدد صورتیں روایت کی ہیں ۔

اُن ہی میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک شامی نے آپ کی مختلف مجلسیں اور خطبات سُنے جس سے وہ بہت متعجب اور

متأثر ہوا اور اما م ؑ کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا :جب میں نے آپ ؑ کی مجلسیں سنیں لیکن اس لئے نہیں کہ آپ کو دوست رکھتا تھا ،اور میں یہ نہیں کہتا: میں آپ ؑ اہل بیت سے زیادہ کسی سے بغض نہیں رکھتا ،اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ اور امیرالمو منین کی اطاعت آپ ؑ سے بغض رکھنے میں ہے ،لیکن میں آپ کو ایک فصیح و بلیغ ، ادیب اور خوش گفتار انسان دیکھتا ہوں ،میں آپ ؑ کے حسنِ ادب کی وجہ سے ہی آپ ؑ سے رغبت کرنے لگا ہوں ۔ امام ؑ نے اس کی طرف نظر کرم ولطف و مہربانی سے دیکھا ،محبت و احسان و نیکی کے ساتھ اس کا استقبال کیا ، آپ ؑ نے اس کے ساتھ نیک برتاؤ کیا یہاں تک کہ اس شخص میں استقامت آئی ،اس پر حق واضح ہو گیا ، اس کا بغض امام کی محبت میں تبدیل ہو گیا وہ امام کا خادم بن گیا یہاں تک کہ اس نے امام ؑ کے قدموں میں ہی دم توڑا،اور اس نے امام علیہ السلام سے اپنی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے وصیت کی ۔امام ؑ نے اس طرزعمل سے اپنے جد رسول اسلام کی اتباع کی جنھوں نے اپنے بلند اخلاق کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کوایک دوسرے سے قریب کیا ان کے احساسات اور جذبات کو ہم آہنگ کیا اور تمام لوگوں کو کلمہ توحید کے لئے جمع کیا ۔



دیدگاهها بسته شده است.