ٹارگٹ کلنگ: آٹھ ماہ میں 280 ہلاکتیں

صوبہ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور رواں سال آٹھ ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کے تین سو سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں جن میں دو سو اسی افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات تو پیش آ ہی رہے ہیں لیکن قوم پرستوں کے حوالے سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات جس طرح پہلے پیش آ رہے تھے اب ان پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم سیکریٹریٹ کو گزشتہ ماہ ایک رپورٹ بھجوائی گئی ہے جس کے مطابق بلوچستان میں آٹھ ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کے تین سو کے لگ بھگ واقعات پیش آئے ہیں جن میں دو سو اسی افراد ہلاک اور چھ سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

تین روز پہلے کوئٹہ کے سریاب روڈ پر انسپکٹر مائنز کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا اور اسی طرح گزشتہ روز طلال بگٹی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے رہنما کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے دونوں افراد کا تعلق اہل تشیع سے تھا۔

شیعہ رہنماؤں کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں چار سالوں میں اہل تشیع کے کوئی دو سو ستر افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔

کوئٹہ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس شاہد نظام درانی نے کہا ہے کہ بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے متحرک افراد اور فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث افراد مشترکہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ میں کوئی پچاس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم نے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالات پر جلد قابو پالیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں براہمدغ بگٹی اور حیربیار مری سے رابطے ہو رہے ہیں۔اس بارے میں بلوچستان کے سینیئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہو سکتا ہے وفاقی حکومت یا وزیر اعلٰی کی سطح پر کوئی کوششیں ہوئی ہوں لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت بیشتر جنوبی اضلاع سے اہل تشیع اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف محفوظ علاقوں کو نقل مکانی کر چکے ہیں۔

گرفته شده از: بی بی سی اردو

+;نوشته شده در ;شنبه بیست و پنجم مهر 1388ساعت;13:34 توسط;مدیریت سایت; |;


دیدگاه برای “ٹارگٹ کلنگ: آٹھ ماہ میں 280 ہلاکتیں