واضح رہے کہ کوئٹہ سانحے میں ہلاک ہونے والے افراد کی اب تک تدفین نہیں کی گئی ہے اور مظاہرین میتوں کے ہمراہ دھرنے میں موجود ہیں۔ مظاہرین کے ساتھ 86 افراد کے جسدِ خاکی ہیں۔
ہفتے کے روز بھی ملک کے تمام بڑے شہروں میں شیعہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہا۔
مجلس وحدت المسلمین اور آئی ایس او کے تحت ہفتے کے روز اسلام آباد کے علاوہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دئے گئے جبکہ لاہور میں بھی گورنر ہاؤس پر احتجاج کیا گیا ۔
سندھ کے اہم شہروں اور پشاور میں بھی احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔
مظاہروں کے اس سلسلے کے بعد گویا حکومت بیدار ہونا شروع ہوئی۔ اس سے قبل تک حکومتی حلقوں کی توجہ تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی مجوزہ لانگ مارچ تک ہی محدود رہی۔ واضح رہے کہ ہفتے کے روز پی پی پی سے تعلق رکھنے والے واحد رہنما خورشید شاہ تھے جنہوں نے دھرنے میں موجود افراد سے مذاکرات کی کوشش بھی کی ۔ جبکہ گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی بھی اس صورتحال میں سرگرم نظر آئے۔
اس کے بعد ہفتے کی شام کو وزیرِ اعظم نے گورنر بلوچستان سے رابطہ کرکے فرنٹیئر کور ( ایف سی ) کو پولیس کے اختیارات سونپنے کا حکم دیا۔ دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کو دبئ سے فوری طور پر واپس آنے کے احکامات بھی دئے گئے۔ وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان کے مطابق اسلم رئیسانی دبئ میں حلق کے علاج کی غرض سے موجود ہیں۔