اسلامی دنیا میں بحرانوں کا پے در پے آنا کوئی نئی بات نہیں بنو امیہ کا دور ہو یا پھر بنی عباس کا ان دو ادوار میں مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے ہر مورخ جانتا ہے۔ بنو عباس کے خلافت کے اختتام کے بعد خلافت عثمانیہ کا دور شروع ہوا مگر اس دوران بھی اسلام کا عمل دخل کم لسان اور نسل کا عمل دخل کچھ زیادہ ہی رہا۔ جبکہ اسلام میں لسان اور نسل کی کوئی گنجائش نہیں مگر مسلمانوں میں مذہب کے نام پر ہر چیز کی گنجائش ہے۔ خلافت عثمانیہ کے اختتام پر اسلامی دنیا کے جس طرح حصے بخیے کیے گئے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر ترکیہ کو اپنی عظمت رفتہ یاد آگئی ہے اور آج اسلامی دنیا کی رہبری کرنے کیلئے پر تول رہا ہے مگر اب یہ اسکی ایک خواہش ہی ہو سکتی ہے کیونکہ آج ترکیہ میں دنیا اسلام کا بدترین دشمن اسرائیل کا سفارت خانہ پایا جاتا ہے۔ ایک ایسے اسلامی ملک میں جو ایک دن دنیائے اسلام کی رہبری کرتا تھا اسرائیل کا سفارت خانہ پایا جانا نہایت ہی افسوسناک بات ہے۔بہر حال آج اسلامی دنیا کی کشتی مسائل کے بہنور میں پھنس چکی ہے اور اپنی حماقتوں کی وجہ سے دنیا ئے اسلام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ نائجیریا ، سوڈان، عراق ،شام، مصر، پاکستان ، افغانستان، کشمیر، فلسطین یہ سب مسلمان ممالک ہیں اور آج سب سے زیادہ کشت و خون انہی ممالک میں ہو رہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی عظیم فوج بھر پور کاروائی کر رہی ہے اور انشااللہ ہماری فوج دہشت گردوں کا صفایا کرکے پاکستان کو ایک پر امن ملک بنانے میں کامیاب ہوجائےگی مگر شام اور عراق میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی کاروائیاں مسلم دنیا کے لئے یقیناً پریشان کن ہیں شام اور حزب اللہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ حکمت عملی کی راہ میں ہمیشہ سے رکاوٹ رہے ہیں۔ 2005 کی اسرائیل و حزب اللہ کی لڑائی میں جس طرح اسرائیل کو حزب اللہ کے ہاتھوں شکست فاش ملی تھی اس دن سے اسرائیل نے حزب اللہ سے بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی۔ آج شام میں جو کچھ ہورہاہے وہ اسرائیلی انتقام کا مظہر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود امریکی مفادات کا ضامن ہے اور امریکہ اپنے بغل بچہ اسرائیل کے تحفظ کیلئے ہر انسان سوز اقدام اٹھانے پر تیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سبرا و شتیلا کا اندوہناک واقعہ کسی طرح بھلانے کے قابل نہیں تھا مگر امریکہ بہادر کی وجہ سے بھلا دیا گیا اور آج اسرائیل ہی کے تحفظ کیلئے داعش النصرۃ القاعدہ جیسی تنظیموں کو تشکیل دینا اور ان کے چہرے پر مذہب کا لیبل لگا کر اسلامی دنیا کو آپس میں گھتم گھتا کرکے اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا امریکہ کی فطری ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں کو فلسطین میں ہونے والی بربریت پر افسوس تو ہے مگر اسرائیلی فتنہ داعش کی مزموم سازش کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہی تو مسلمانوں کا المیہ ہے کہ وہ دشمن کی سازشوں کو اس وقت سمجتھے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ آج شام اور عراق میں حزب اللہ کو اسرائیل نے مصروف رکھا اور نہتے فلسطینوں پر آزادانہ طریقے سے بم برسا رہا ہے اور اب تک 700 کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور دنیا میں مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے یہا ں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی بربریت کو دفاع کا نام دیکر اپنے ہی دماغ پر سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ دنیائے اسلام میں سرفہرست ایران ہے جو فلسطینی عوام کی کھلم کھلا حمایت کرتا ہے اور اس کے بعد شام اور حزب اللہ بھی براہ راست حماس اور فلسطینی عوام کی مدد کرتے ہیں۔ آج اسرائیل نے اپنی مزموم سازشوں کی وجہ سے شام کو باغیوں میں الجھائے رکھا ہے جسکا فائد ہ براہ راست اسرائیل کو پہنچ رہا ہے۔ اسرائیلی بربریت اور جارہیت کے خلاف پوری دنیا سراپا احتجاج ہے مگر امریکہ اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور اسلامی دنیا کا حشر یہ ہے کہ فلسطینوں کے حق میں کوئی خاطر خواہ مظاہرہ تک نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے جمعتہ الوداع کو یوم القدس کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا ہے کاش رہبر کبیر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ امام خمینی کے تاریخی اعلان القدس پر عمل کیا جاتا اور اس کی اہمیت کو سمجھا جاتا تو آج فلسطین اور القدس کی یہ حالت نا ہوتی۔ امام خمینی نے فرمایا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان اگر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر گرا دے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا مگر اب اسرائیل فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے اور اس کی واضح مثال آٓج کی بے باکانہ بمباری ہے اور عرب حکمران بے غیرتی اور بے حیائی کی تصویر بنے کھڑے ہیں اور صرف اسرائیل سے ذلت و خواری کے ساتھ جنگ بندی کی عاجزانہ التماس کررہے ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر