علامہ استاد محمد جمعہ اسدی نے 8 محرم الحرام 1444 کی مجلس سے خطاب کرتے ہو ئےکہا عزاداری کو عاشورا سے پہلے کیوں شروع کردیاجاتاہے؟ اس سوال کو انھوں نے اپنے خطاب میں اٹھایا اور اسکا جواب دیتے ہو ئے کہا۔
عزاداری امام حسین ؑ کو ئی معمولی عزاداری نہیں ہے ۔یہ انسان کی روح و جان کو جھنجوڑتی ہے۔ سیاہ کپڑے پہننا، عزاء خانوں اور سڑکو ں کو سیاہ پوش کرکے عزاداری کا آغاز ہوتاہے اور الحمداللہ ہمارے معاشرے میں عاشورا کے بعد حتی ماہ صفر میں بھی مؤمنین سوگ مناتے ہیں اور اولیاء الھی خصوصا آئمہ معصومین اور بطوخاص سید الشھداء کے مقصد کو زندہ رکھنے کی کو شش کرتےہیں۔
کاروان امام حسین ؑ دومحرم کو وارد کربلا ہوا اور اسکے بعد سپاہ یزید بتدریج وارد کربلا ہوتی رہی اور ساتھ ہی اھل بیت عصمت و طھارت کی مصیبتوں میں اضافہ ہو تارہا۔ در حقیقت امام حسین ؑ کی مصیبت کا آغاز ابتدائے محرم سے ہی ہو گیا تھالھذا ہم اول محرم سے سوگ مناتے ہیں۔
مولانا اسدی نے کربلا کے قیام کی جاودانگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قیام و نہضت کربلا کی جاودانگی کے اسباب میں سے ایک سبب اسکو باقی رکھتاہے ۔
امام خمینی ؒ نے فرمایا” آج چودہ سوسال گزرنے کے بعد بھی ان منبروں نے ، سینہ زنی واور بیان مصیبت نے دین اسلام کو زندہ رکھاہے”۔
عزاداری خط شہادت کا احیاء (زندہ کرنا) اور علی ؑ وآل علی ؑکی صدائے مظلومیت کو پو ری دنیامیں پھنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ عاشوراء کی بقامیں عزاداری کی کردار بہت اہم ہے اور بشریت کے لیئے اس کے مثبت اثرات و برکات رو نما ہو نگے۔
امام باقر ؑ نے گھروں میں عزاداری کو بر پا کرنے سے کے حوالے سے فرمایا: عزاداری کرو اور گریہ کرو اور اپنے اھل خانہ کو ان کی مصیبت پر گریہ کر نے کا حکم دو ۔ حسین پر گریہ و نالہ کرکے عزاداری کرو اور ایک دو سرے سے ملاقات کرتے وقت امام حسین کی شھادت پر ایک ، دو سرے کو تعزیت پیش کرو۔