تحریر: اکبر حسین زاہدی
سانحہ ہزارہ ٹاون پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سانحہ ہے جس جگہ یہ سانحہ رونما ہوا وہاں مختلف کاروباری مراکز ہیں کوئٹہ شہر میں ہزار ہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کی مسلسل وارداتوں کی وجہ سے ہزارہ برادری اپنے ہی علاقوں میں کاروباری مراکز قائم کرنے پر مجبور ہوئی تا کہ تمام اشیاء ضرورت انہیں اپنے ہی علاقوں میں دستیاب ہوسکیں جہاں یہ بھیانک سانحہ رونما ہوا وہاں کاسمیٹک، ریڈی میڈ لباس، اسٹیشنری، اور کھلونوں کی زیادہ تر دکانیں تھیں اور ساتھ ہی ایک مختصر سی سبزی منڈی بھی تھی ایسے مراکز اور مقامات پر اکثر خواتین اور بچوں کا ہجوم ہوتاہے یہ مارکیٹ اور سبزی منڈی چونکہ ہزارہ ٹاون کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں بچوں اور خواتین کا رش ہمیشہ لگا رہتاہے اس مارکیٹ کے آس پاس انگلش لینگویج سینٹر اور پرائمری اسکول بھی ہیں سوا پانچ بجے کا وقت وہی وقت ہوتاہے جب اکثر بچے انگلش سینٹرز اور اسکولوں سے گھر لوٹتے ہیں اس جگہ کے انتخاب کی وجہ بھی آسان ہدف اور رش ہی تھا ننھے منے بچے دنیا سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن کھیلتے کو دتے اس بازار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتے تھے یہی بچوں کی حسین فطرت ہوتی ہے دنیا میں اسرائیل بے رحمی میں مشہور ہے اور اسکی بے رحمی کے سینکڑوں ہزاروں قصے اور کہانیاں ہیں سبرا اور شتیلا کا واقعہ مشہور ہے جس میں سینکڑوں بچوں کو گولیوں سے بھون دیاگیا تھا اسرائیل ہر اعتبار سے اپنا رعب جمانا چاہتاہے اس کی نظر میں بچوں کی معصومیت کوئی معنی نہیں رکھتی مگر فلسطینی بچے کم از کم ہاتھ میں پتھر اٹھا کر اسرائیلی فوج کی طرف اچھالتے تو ہیں مگر ہزارہ ٹاون میں بکھرنے والے بچوں نے ان دہشت گردوں کا کیا بگاڑا تھا اکثر بچے انگلش سینٹرز اور اسکولوں سے گھر لوٹ رہے تھے کچھ بچوں کی مائیں اپنے ننے بچوں کا ہاتھ تھامے اسی مارکیٹ کے وسط سے گھر لے جارہی تھیں کہ دھماکہ ہوا اور اس دھماکے کے نتیجے میں پھول جیسے بچے مرجھائے ہوئے پھول کی پتیوں کی طرح بکھر گئے کچھ بچے اتفاق سے محفوظ رہے مگر انکی معصوم نگاہوں کے سامنے ان کی چاہنے والی مائیں خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں یہ بچے اگر چہ خود بھی زخمی تھے مگر انہیں اپنے زخموں کی فکر نہیں تھی ماوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتے ہوئے ماوں کو پکار تے تھے اور کہتے تھے کہ اماں اٹھو آگ لگی ہے اماں بولتی کیوں نہیں جلدی سے اٹھو کہیں آگ کے شعلے تجھے جھلسا نہ دیں اور کچھ مائیں خود تو زخمی تھیں مگر انکے سامنے انکے بچوں کی خون میں نہائے لاشیں زمین پر پڑی ہوئی تھیں مائیں اپنے بچوں کو اٹھا کر بھڑکتے ہوئے شعلوں سے نکالنا چاہتی تھیں مگر اٹھنے کے قابل نہیں تھیں ان بھڑکتے شعلوں میں ان معصوم بچوں کی لاشیں نازک ٹہنیوں کی طرح جل کر خاکسترہوئیں۔ کچھ ایسے بھی بچے تھے جن کے والد اور والدہ کی خون آلود لاشیں زمین پر پڑی ہوئی تھیں یہ بچے کبھی ماں کی لاش سے لپٹتے تھے تو کبھی باپ کی لاش سے اور کبھی اپنے ہم سن بچوں کی لاشوں کو بلابلاکر انہیں اٹھانے کی کوشش کرتے تھے بعض زخمی بچے اپنی شہید ماوں کو پکار تے تھے اور کہتے تھے اماں میں زخمی ہوں میرے جسم سے خون نکل رہاہے اماں اٹھو مجھے جلدی سے اسپتال پہنچا دو یہ ہے ہمارا پاکستان لاکھوں شہیدوں کے خون کے بدلے حاصل کئے جانے والے پاکستان کے دامن پر اب اپنے ہی شہریوں کے خون ناحق کے دھبے لگے ہوئے ہیں کیا یہ سب کچھ ملک کے مفاد میں ہورہا ہے کیا پاکستان کے استحکام کو معصوم بچوں کے لہو کی ضرورت ہے کیا دنیا میں کسی ملک کو اپنے شہریوں کے خون سے استحکام حاصل ہواہے اگر ایسا ہواہے تو کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ ملک کا بھی اپنے شہریوں پر احسان ہوتاہے اور اس احسان کے بدلے ملک خون کا مطالبہ کرے تو دنیا چاہیے جی ہاں پاکستان میں دودھ پینے والے مجنون تو حد سے زیادہ ہیں مگر خون دینے والے مجنونوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے آج ہمارے ارباب اقتدار و اختیار محو خواب خرگوش ہیں ان کو ہوش دلانے کیلئے پانی کی چھینٹیں نا کافی ہیں شاید ان پھول سے معصوم بچوں کے مقدس لہو کی چھینٹوں کی ضرورت ہے ہماری خفیہ طاقتیں ہمیشہ ان مجرموں کی سفاکیوں کو مخفی رکھنے میں مشہور ہیں شاید اب ان کو بھی عقل آجائے اور ملک کے ماتھے پر لگے اس بد نما داغ کو دھونے کی فکر لاحق ہوجائے۔
کشمیر افغانستان، فلسطین، شام میں جو کچھ ہورہاہے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے جن معاشروں میں ظلم و نا انصافیوں پر خاموش اختیار کی جاتی ہے ایسے معاشرے دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر اپنا وجود ہی کھو دیتے ہیں اب بھی فرصت باقی ہے آئیے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ناحق بہنے والے لہو کو روک کر ملک کو استحکام بخشیں اور اقوام عالم میں اچھے القاب پانے کی اجتماعی جستجو کریں اور ہماری پیشانی پر لگے سفاکیت، خونخواری، وحشت و درندگی، ضمیر فروشی بد عنوانی اور غلامی کے دھبوں کو دھونے کی ہمت پیدا کریں۔