سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے کہا ہے کہ گورنر راج سے حالات بہتر نہیں ہوں گے ٗپانچ سالوں میں دہشتگرد تنظیموں کے ایک کارکن کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان تو شروع ہی سے فورسز کے حوالے تھاجب بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو پہاڑوں میں میں تلاش کر کے قتل کیا جاسکتا ہے تو فرقہ واریت کے مرتکب افراد کو کیوں نہیں تلاش کیا جا سکتا؟انہوں نے کہاکہ کون سی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جو انٹیلی جنس کو معلوم نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ گورنر راج اس مسئلے کا حل نہیں یہ سطحی تبدیلیاں ہیں اور کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اختر مینگل نے کہا کہ صوبائی حکومت کی نالائقی ایک طرف تاہم گورنر راج سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور دیکھیے گا کہ چند ہی دنوں میں حالات وہی ہو جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ پچھلے پانچ سالوں میں ان دہشت گرد تنظیموں کے ایک کارکن کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ بلوچ مزحمت کاروں کو پکڑ کا لاشیں پھینکی جا سکتی ہیں تو ان شدت پسندوں کو گرفتار کر کے عدالت میں تو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس سب کے پیچھے وہ طاقتیں ہیں جو جمہوریت کے حق میں نہیں ہیں۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے جنرل ریٹائرڈ قادر بلوچ نے کہا کہ اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صوبائی حکومت ناکام ہو چکی تھی اور گورنر راج اگر اس نیت کے ساتھ لگایا گیا ہے کہ اس پر اتنی پابندیاں نہیں ہوتی اور فیصلے لیے جا سکتے ہیں اور حالات بہتر ہوں جائیں گے تو اچھا ہے۔
گورنر نواب ذوالفقار مگسی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعلی رہ چکے ہیں اور ان کے دور میں حالات بہتر تھے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ وہ حالات پر قابو پا لیں گے۔پاکستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنما اسرار اللہ زہری نے کہا کہ گورنر راج کا نفاذ غیر آئینی اور غیر قانونی قدم ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ رئیسانی مستعفی ہونے کو تیار بھی تھے اور چاہیے تھا کہ ان سے استعفیٰ لے کر جمہوری عمل کو مزید مستحکم کرتے۔انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ بلوچستان محفوظ ہو جائے گا تاہم سب سے پہلا حملہ بلوچستان ہی پر ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اندرونی اور بیرونی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ملک میں جمہوریت ہو اور وہ کامیاب رہے کیونکہ حکومت نے جلد بازی کی۔