جامعه(کوئٹہ)دنیا میں مذہب اہل بیت(ع) کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بعض متعصب حکمرانوں کی جانب سے مختلف اقدامات کے ذریعے سالہا سال سے اہل بیت(ع) کے پیروکاروں پر مظالم کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے کبھی شیعوں کا قتل عام کیا جاتا ہے ان کی مسجدوں اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے کئے جاتے ہیں ان کے علماء کو ٹرور کیا جاتا ہے انہیں جیلوں میں بند کیا جاتا ہے شیعوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے سیاسی میدان میں ان کی شمولیت پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں آزادی کے ساتھ انہیں اپنے دینی رسومات انجام دینے سے منع کیا جاتا ہے اور تکفیری مفتی ان پر کفر کے فتوے لگا کر انکے قتل کا جواز فراہم کرتے ہیں۔
شیعوں پر ظلم کا تاریخی سلسلہ
اس میں کوئی شک نہیں اہل بیت(ع) رسول اسلام اور ان کے چاہنے والوں پر ظلم کا سلسلہ اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا جب نبی کریم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دنیا سے رخصت ہوئے، رسول کی بیٹی، رسول کے داماد اور رسول کے نواسوں کا حق تبھی چھین لیا گیا، رسول کی بیٹی کا حق باغ فدک مار لیا گیا، رسول کے جانشین برحق امیر المومین علی بن ابی طالب (ع) کا حق غصب کر لیا گیا سبط اکبر کے جنازے پر تیر برسا دئے گئے، سبط اصغر پر کربلا میں قیامت ڈھا دی گئی۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں شیعوں کو زندہ زندہ دیواروں میں چن دیا گیا، ان کے خون سے دیواروں کا گارا بنایا گیا، عثمانی حکومت میں شیعوں کا کھلے عام قتل کیا گیا، شیخ نوح حنفی نے شیعوں پر تکفیریت کا فتویٰ لگا کر انہیں واجب القتل قرار دے دیا جس کے نتیجے میں شام کے شہر حلب میں شیعوں کے خون سے ندیاں بہائی گئیں۔ صلاح الدین ایوبی کے دور حکومت میں شیعوں کی سیاسی پوزیشن کو گرانے کی کوشش کی گئی اور بہت سارے شیعہ قاضیوں کا معزول کر دیا گیا اور شافعی قاضیوں کو ان کی جگہ بٹھایا گیا۔
سعودی عرب سے مشرقی ایشیا تک ظلم کا سلسلہ
سعودی عرب کے مشرقی علاقوں الاحساء اور القطیف جہاں شیعوں کی اکثریت پائی جاتی ہے میں شیعہ ظلم و تشدد کا شکار ہیں، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے انہیں اپنے مذہبی رسومات انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاتی، مذہبی مراکز قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، سعودی عرب میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری منانا قانونی جرم ہے اس ملک میں شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والی کتابیں چھپوانا ممنوع ہے۔ شیعوں کے ٹی وی چینل اور ویب سائٹس فلٹر ہیں سعودی عرب کے سرکاری اداروں میں شیعہ شاذ و نادر نظر آتے ہیں سرکاری کمپنیوں میں ان کی شمولیت آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ شیعہ علاقوں میں تعلیمی اور طبی سہولیت انتہائی کم ہیں۔ تعلیمی مراکز میں سامنے سامنے شیعہ طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ عدالتوں اور قضاوت کے امور پر غیر شیعہ کو بہر صورت شیعہ پر ترجیح دی جاتی ہے سیاسی میدان میں شیعہ بالکل قدم رکھنے کی جرئت نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں کوئی سیاسی رتبہ دیا جا سکتا ہے۔
بحرین میں اس کے باوجود کہ شیعوں کی اکثریت پائی جاتی ہے لیکن جو حکومت ہے وہ سعودی عرب کے ماتحت آل خلیفہ کی حکومت ہے جس کا شیعوں پر ظلم و ستم بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس ملک میں بھی شیعہ سرکاری عہدوں سے محروم اور سیاسی عہدوں سے دور ہیں۔ بحرین کے شیعہ ۲۰۱۱ سے ادھر خاص طور پر پورے منصوبوں کے تحت ظلم و ستم کا شکار بنائے جا رہے ہیں۔
عرب امارات میں ۱۷ فیصد شیعہ بستے ہیں۔ لیکن وہاں پر انہیں طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔ اگر چہ ابوظبی میں زیادہ تر شیعہ یا بحرین سے آکے بسے ہیں یا ایران اور ہندوستان سے۔
قطر میں شیعوں کی تعداد نامعلوم ہے اگر چہ وہاں ان کی ظاہری صورت حال بہتر ہے لیکن مذہبی حوالے سے وہ بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
عراق میں شیعہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ساری دنیا دیکھ رہی ہے، صدام کے دور میں ان کا کیا حشر کیا گیا سب جانتے ہیں شیعہ علماء کا زندے زندے قیمہ بنایا جاتا تھا سالہا سال جیلوں میں زیر شکنجہ رکھا جاتا ہے اور آج بھی جو جنگ جاری ہے وہ صرف شیعوں کے خلاف جاری ہے۔
ہندوستان میں بھی شیعوں کی بہتر داستان نہیں ہے خاص طور پر کشمیر میں شیعہ ابھی بھی یا تقیہ میں ہیں یا تشدد کا شکار۔ پاکستان میں تو شیعہ یعنی کافر، اسی لیے انہیں مسجدوں میں امام بارگاہوں، گلی کوچوں میں جہاں ملیں وہاں ان کی ٹارگٹ کلنگ کی جاتی ہے۔
مشرقی ایشیا جیسے ملیشیا میں باقاعدہ طریقے سے شیعوں کے خلاف قانون پاس کیا جاتا ہے اور جو بھی شیعہ مذہب کے لیے کھلے عام کوئی کام انجام دے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ چین میں جو کچھ مٹھی بھر شیعہ ہیں وہ صرف سین کیانگ کے علاقے میں ہیں اور وہ بھی اسماعیلی شیعہ ہیں اور چین کے پہاڑی علاقوں میں غلاموں کی طرح شیعہ مسلمانوں کو خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی سماج کو شیعوں پر ہو رہے ظلم کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت
اس بات کے پیش نظر کہ مذہبی آزادی بین الاقوامی سماج میں ایک اصل کے عنوان سے قابل قبول ہے لہذا اس اصل کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعوں کی مظلومیت اور مذہب کی بنا پر ان پر ہو رہے ظلم و ستم کی دلیل کیا ہے؟ اس موضوع کو بین الاقوامی سماج اور عالمی میڈیا کے اندر پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام عالم انسانیت کو معلوم ہو جائے کہ دنیا میں ایک ایسی قوم بھی ہے جسے صرف مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس درمیان وہ تنظیمیں جو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے لیے کام کرتی ہیں انہیں کوشش کرنا چاہیے تاکہ شیعہ مظلومیت کو دنیا میں برملا کریں خاص طور پر عالمی میڈیا کے اندر اس چیز کا جگہ پانا ضروری ہے۔
اس مسئلہ کا بین الاقوامی مسئلہ میں تبدیل ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر حقوقی اور اخلاقی پابندیوں کے ضمن میں آجائے تاکہ جب اور جہاں بھی کوئی شیعہ مخالف اقدام انجام پائے اس کی مذمت کی جائے۔ اگر عالمی سطح پر اس اقدام کی مذمت ہو گی تو وہ تکفیری جو شیعوں کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں یا ہر وہ مفتی جو شیعوں کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں ان کے خلاف عالمی سطح پر کاروائی کی جائے گی چاہے وہ خطیب مکہ ہی کیوں نہ ہو۔
بین الاقوامی سطح پر شیعہ مظلومیت کو بیان کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ شیعوں کو کافر کہنا جرم شمار ہو گا اور ان کے خلاف کوئی دھشتگردانہ کاروائی بھی انسانیت کے خلاف کاروائی مانی جائے گی۔
جس طریقے سے عراق میں طول تاریخ شیعہ ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے ہیں اسی طریقے سے خلیجی ممالک میں شیعوں پر ظلم و ستم جاری ہے بین الاقوامی سماج میں شیعہ مظلومیت کا مسئلہ پیش کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا بحرین اور سعودی عرب میں موجود شیعوں کو بھی ان کے حقوق کی بازیابی میں مدد ملے گی۔
ان ممالک کے علاوہ افریقہ کے اندر بھی شیعہ مسلمان ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں اس براعظم میں رہنے والے شیعہ اس قدر مظلوم ہیں کہ ان کی آواز دنیا کے کسی کونے میں نہیں پہنچتی۔ عالمی میڈیا میں اس مسئلہ کو بھی سامنے لانا بہت ضروری ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں شیعہ بستے ہیں اور مختلف قوموں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہیں انہیں بھی شائد اس طریقے سے سکون کی سانس میسر ہو۔
اس لیے شیعہ مظلومیت کے مسئلے کو ایک عالمی مسئلہ قرار دئے جانے اور عالمی سماج کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروانے کی کوشش کرنا ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے۔