ششکٹ نامی گاؤں کے درمیان سے گزرنے والے گلیشیائی نالے میں زبردست طغیانی کی وجہ سے دریا ہنزہ کا بہاؤ 2 سال پہلے رُک گیا تھا جس کی وجہ سے شاہراہ قراقرم پر بنا ’پاک چائنا دوستی پُل‘ دریا برُد ہوچکا تھا۔
شاہراہِ قرقرم کی تعمیر میں مصروف چینی اور پاکستانی فوجیوں اور مقامی لوگوں کو آمد و رفت میں سخت مشکلات کا سامنا تھا۔ دریا عبور کرنے کے لیے پاک فوج نے گلمت نامی گاؤں میں دریا کے آر پار آہنی رسوں اور انجن والی کشتیوں کی مدد سے ایک عارضی پُل (رافٹ) تیار کیا تھا، جس پر سے مقامی افراد اور گاڑیاں گزرتی تھیں۔ اس علاقے میں دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہے اس لیے یہاں پل کی فوری تعمیر ممکن نہ تھی۔
ایک ٹرک جس پر بہت سارے افراد سامان کے اوپر بیٹھے تھے، آہنی کشتیوں کو آپس میں جوڑ کر بنائے گئے پل پر دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ اچانک گاؤں کے لوگوں نے تڑاخ کی آواز سُنی اور پھر چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ دریا کے نزدیک کھیتوں میں کام کرنے والے بھاگ کر آئے اور عارضی پُل کی طرف دیکھنے لگے۔ لوہے کی تار ٹوٹنے سے آپس میں جڑی ہوئی کشتیاں کُھل گئیں تھیں اور عارضی پُل دریا پر دھیرے دھیرے بہنے لگا تھا۔ ٹرک کے اوپر بیٹھے افراد، جن میں پاک فوج کے جوان، چینی انجینئرز کے علاوہ مقامی افراد بھی تھے، گبھراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں چیخ و پُکار کر رہے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ یہ 28 جولائی 1976 کا واقعہ ہے۔
پھر گاؤں کے لوگوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی، جس میں فوجی وردی میں ملبوس ایک شخص بیٹھا تھا، کا انجن اسٹارٹ ہوا اور وہ تیزی سے دریا کی تندوتیز موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔
رافٹ دریا میں بہہ رہا تھا اور اس پر موجود ٹرک دھیرے دھیرے جھکنے لگا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب ٹرک دریا میں گر جائے گا۔ گاؤں والے بتاتے ہیں کہ ٹرک جھکنے لگا تو اس پر موجود لوگوں نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور مدد کے لیے پکارنے لگے۔
چھوٹی سی کشتی تیزی سے آگے بڑھی اور اس کو چلانے والا فوجی دریا میں کودنے والے لوگوں کو بچانے میں مصروف ہو گیا۔ کشتی پر سوار فوجی جوان ڈوبتے لوگوں کو کشتی میں ڈال کر کنارے پر آتا تھا اور پھر جلدی سے واپس چلا جاتا تھا۔ گاوں کے لوگ سانسیں روکے اس خطرناک مرحلے کو دیکھ رہے تھے اور دل ہی دل میں جانیں بچانے والے فوجی جوان کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔ دریا سے نکالنے اور کنارے تک پہنچانے کا کام مسلسل جاری رہا۔ کچھ لوگ پانی میں غائب بھی ہوگئے، جبکہ دوسروں کے تیرتے سر کنارے پر کھڑے لوگوں کو نظر آرہے تھے۔ تیزی سے دریا کی رو میں بہنے کے باوجود جھُکا ہوا ٹرک پوری طرح سے نہیں اُلٹا، بلکہ یونہی بہتارہا۔ آخر میں ٹرک پر موجود ایک بزرگ خاتون، جو مضبوطی سے ٹرک کے ساتھ چمٹ کر بیٹھی تھی، کو بھی جائے حادثہ سے تقریباً 2 کلومیٹر دور جنوب کی جانب سے بحفاظت چھوٹی کشتی میں بٹھا کر دریا کنارے پہنچا دیاگیا۔
جس نوجوان فوجی نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا وہ آج بھی حیات ہیں اور میانوالی میں ماڑی نامی شہر میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے فون پر بتایا کہ اُس روز اپنی جان پر کھیل کر اُنہوں نے دریا میں کودنے یا گرنے والے 26 لوگوں کی جانیں بچائی، جبکہ 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، جن میں این ایل آئی کے جوان بلبل جان بھی شامل تھے جو چھٹی گزارنے اپنے گاؤں آئے تھے۔
“یہ سب اللہ کا کرم ہے جناب کہ اُس روز میری ریسکیو والی کشتی میں خرابی نہیں ہوئی اور میں ان لوگوں کو بحفاظت کنارے تک لا سکا”، لانس (ر) نائیک فیض محمد، جنہیں اس بہادری اور جانفشانی کے عوض تمغہ بسالت سے نوازا گیا تھا، نے مجھے فون پر بتایا۔
“شروع میں کشتی پر بہت زیادہ لوگ بیٹھے ہوے تھے۔ میں ریسکیو کی ڈیوٹی پر تھا۔ میں نے سیٹی بجا کر میجر صاحب کو بتایا کہ کچھ لوگوں کو اُتار دیں کیونکہ ہوا بھی چل رہی تھی اورپانی کا بہاؤ بھی بہت تیز تھا”، لانس نائیک فیض محمد کو اس دن کے واقعات پوری طرح یاد ہیں۔
“ٹرک سے اتارے جانے پر کافی لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوئے کیونکہ اُنہیں لگا کہ میری وجہ سے اُنہیں اس ٹرک سے اتارا گیا ہے۔ حادثے کے بعد ان ناراض لوگوں میں سے بہت سارے میرا شکریہ ادا کر رہے تھے، کیونکہ اگر انہیں نہیں اُتارا جاتا تو نہ جانے ان کے ساتھ کیا ہوجاتا”، فیض محمد صاحب نے ہنستے ہوے فون پر مجھے بتایا۔
میں ان واقعات کی تفصیلات بچپن سے سُنتا آرہا تھا۔ فیس بُک کے طفیل میری غائبانہ ملاقات لانس نائیک فیض محمد صاحب سے ہوئی اور میرے دل میں یہ خیال اُبھرا کہ ان کی کہانی قارئین تک پہنچائی جائے، کیونکہ اس دورِ پر آشوب میں جہاں لوگ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں، لانس نائیک فیض محمد (تمغہ بسالت) کی فرض شناسی، بے لوث قربانی اور جانفشانی کی کہانی ہمارے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔